’’ تمباکو کھانا پینا سونگھنا مباح ہے ۔ مگر غیر اولی ہے ۔ جس کا حاصل یہ ہے کہ مکروہ تنزیہی ہے ، اور تجارت تمباکو کی درست ہے ، اس کے گھر کا کھانا جائز ہے ‘‘ ۱؎
اسی کتاب میں مفتی محمد شفیع ؒ اباحت کے ایک فتویٰ کی تائید کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’ جواب صحیح ہے ، البتہ اگر بلاضرورت پیے تو مکروہ تنزیہی ہے ، اور ضرورت میں کسی قسم کی کراہت نہیں ۔ منہ صاف کرنا بدبو سے ہر حال میں ضروری ہے ‘‘ ۔ ۲؎
بریلوی مکتبِ فکر کے سرخیل مولانا احمد رضاخاں صاحب بریلوی بھی اباحت تمباکو کے قائل تھے ، حقہ نوشی کے جو از پر بحث کرتے ہوئے دوٹوک الفاظ میں فرماتے ہیں :
’’ الحاصل معمولی حقہ کے حق میں تحقیق حق و حق تحقیق یہی ہے کہ وہ جائز و مباح اور غایت درجہ صرف مکروہ تنزیہی ہے یعنی جو نہیں پیتے اچھا کرتے ہیں اورجو پیتے ہیں بُرا نہیں کرتے ‘‘ ۔ ۳؎
مولانا عبد الحئ لکھنوی ودیگر علماء کے نزدیک تمباکو چبانا مکروہ نہیں ہے یعنی مباح مطلق ہے ، البتہ ان کے نزدیک تمباکو پینا مکروہ ہے ، مولانا تھانویؒ نے کھانے کو اخف کہا ہے لیکن محققین اہل علم واطباء کے نزدیک تمباکو کھانا یا چبانا پینے کے مقابل میں زیادہ نقصان دہ ہے ۔ جمال الدین قاسمی اس سلسلے میں رقم طراز ہیں :
’’ وأما مضغ التبغ فھو عادۃ المتوحشین الغیر
------------------------------