اور گیارہویں کے اوائل میں عرب اس سے واقف ہوئے ہیں ، اس وقت جوا ہل علم خصوصاً مجتہدین مذاہب موجود تھے انہوں نے اس کا شرعی حکم واضح کرنے کی کوشش کی ہے ، کچھ علماء نے اس مسئلے میں ویسے ہی اختلاف کیا ہے جس طرح ہر اس مسئلہ میں کیا جس کے بارے میں کوئی شرعی نص موجود نہیں تھی ۔
کسی نے اسے مسکر تصور کرکے شراب کی طرح قطعاً حرام و ناپاک قرار دیا ، بر خلاف اس کے کسی نے اسے عام غذا کی طرح پاکیزہ اور حلال تصور کیا ، کسی نے اس میں بدبو ہونے کی وجہ سے کچے لہسن وپیاز پر قیاس کرکے مکروہ قرار دیا ، کسی نے کہا کہ جس کو نقصان کرے اس کے لیے حرام اورجس کو نقصان نہ کرے اس کے لیے جائز ہے ۔ اور کسی نے اس کی حلت یا حرمت پرواضح نص نہ ہونے کی وجہ سے خاموشی اختیار کرنے کو بہتر سمجھا ، بہر کیف تمام مذاہب اربعہ میں سے فقہاء کی ایک جماعت نے تمباکو کو حرام قرار دیا ہے ، اور بعض نے مکروہ اورکسی نے مباح ۔
شافعیہ اور حنفیہ کے اکثر علماء نے اس کو مکروہ یا مباح کہا ہے ، اور ان میں سے بعض نے حرمت کا فتویٰ دیا ہے، اور اکثر مالکیہ نے اسے حرام کہا ہے ، اور ان میں سے بعض نے مکروہ ، اور تقریباً یہی صورتحال ہے فقہائے حنابلہ کی ، لیکن علماء نجد اس کی حرمت پر متفق نظر آتے ہیں ۔
دوسرے اہل مذاہب نے بھی تمباکو کو حرام قرار دیا ہے ۔ مثلاً جزیرۃ العرب میں اباضیہ ، شمالی و مغربی افریقہ میں تیجانیہ ، شام ولبنان میں نصیریہ اور ایران میں عقیدۂ بہائیہ کے بانی نے تمباکو کو حرام قرار دیا ہے ، نیز فرقۂ دروز کے علماء پر اس کا استعمال حرام ہے ۔
سکھوں کے دسویں گرو گوبند سنگھ جی جنہوں نے ہر سکھ کے لیے پانچ چیزیں کیس ، کرپان ، کنگھا ، کچھا اورکڑا لازم قرار دیاتھا ۔ انہوں نے اپنے پیروؤں پر تمباکو