ترکی میں اس کی آمد ۱۶۰۵ ء میں ہوئی ، بعض مؤرخین کے بقول یورپ میں آنے کے چند سال بعد ہی ترکی پہنچ گیا تھا ۔
اور ایران میں شاہ عباس ثانی کے عہد میں اس کا استعمال ہوتا تھا جو ہندوستان میں شہنشاہ جہانگیر (۱۵۶۹۔۱۶۲۷)کا ہم عصر تھا ، شہنشاہ جہانگیر تزک جہانگیری میں لکھتاہے :
’’ تمباکو کے مضر اثرات کی وجہ سے میں نے خود اپنی سلطنت میں حکم دیا کہ کوئی شخص تمباکو نوشی نہ کرے ، برادرم شاہ عباس والئ ایران نے بھی تمباکو کے نقصانات سے مطلع ہوکر ایران میں حکم دے دیا کہ کوئی شخص اس کے پینے کا مرتکب نہ ہو ، خانِ عالم ایک طویل مدت سے متواتر تمباکو پینے کی عادت سے مجبور تھا اور اکثر اوقات اس امر کا اقدام کرتا رہتا تھا ، اس وجہ سے شاہِ ایران کے ایلچی یادگار علی سلطان نے شاہ عباس کو ایک عرضداشت میں لکھا کہ خانِ عالم ایک لمحہ بھر بھی بغیر تمباکو کے نہیں رہ سکتا اس عرضداشت کے جواب میں شاہ ایران نے یہ شعر لکھ کر بھیجا :
رسولِ یار می خواہد کند اظہار تنباکو
من از شمع وفا روشن کنم بازار تنباکو
(میرے دوست کا ایلچی مجھ سے تمباکو کی خواہش کا اظہار کرتاہے
اور میں شمع وفا سے تمباکو کا بازار روشن کرتاہوں )
خانِ عالم نے شعر پڑھ کر جواب میں لکھا :
من بے چارہ می بودم از اظہار تنباکو
زلطفِ شاہ عادل گرم شد بازار تنباکو
’’ میں اس قدر بیچارگی کا شکار تھا کہ تمباکو کی خواہش ظاہر نہیں کرسکتا تھا اب عادل
------------------------------