ہی ببانگِ دہل اشتہاربازی میں بھی مصروف ہیں ۔
تمباکو کا استعمال خواہ کسی طریقہ پر کیا جائے، سبھی کے بارے میں مضرِ صحت ہونے پر ماہرین اتفاق رکھتے ہیں ، اس کا مستقل استعمال دل و دماغ ودیگر اعضاء و جوارح کو بتدریج بے حس بنا دیتاہے، سانس سے متعلق بیشتر بیماریاں اور پھیپھڑوں کے امراض اسی کی دین ہیں ، اسی کے ساتھ ساتھ تمباکو نوشی آنے والی نسلوں پر بھی اثر انداز ہوتی ہے، ایسے افراد کے بچوں کو بہت سی بیماریاں والدین سے ورثہ میں ملتی ہیں بالخصوص اگر ماں اس کی عادی ہو تو!
تمباکونوشی کے انسداد کے لیے دنیا بھر میں اجتماعی و انفرادی کوششیں مختلف سطح پر ہورہی ہیں ۔ صحت ِ عامہ سے متعلق تنظیمیں بھی اس کے لیے جد و جہد کررہی ہیں ۔ اصلاحِ معاشرہ کے علمبردار حضرات بھی اس کے لیے کوشاں ہیں ، گزشتہ برس یوپی حکومت نے بھی گٹکے کے استعمال پر شدت کے ساتھ پابندی عائد کی پھر بھی مسئلہ حل ہونے کے بجائے مزید الجھتا جارہاہے اور یہ وبا معاشرہ میں ایک ناسور بن کر پنجے گاڑ چکی ہے، میرے خیال میں اس لعنت سے چھٹکارے کے لیے یہ امر نہایت ضروری ہے کہ نوجوانوں کے دلوں میں کسی بھی طرح کے نشہ سے شدید نفرت پیدا کردی جائے، روک ٹوک ، ڈانٹ ڈپٹ اور پابندی اس کا موثر علاج نہیں ۔
مولانا حفظ الرحمن اعظمی ندوی عرصۂ دراز سے تمباکونوشی کے خلاف انفرادی مہم چلاکر برابر جد وجہد کررہے ہیں ، اخبارات و رسائل میں ان کے مضامین برابر شائع ہوتے رہتے ہیں جو یقینا قارئین کو متوجہ کرتے اور اثر انداز ہوتے ہیں ۔ موصوف نے ان سب مضامین کو یکجا کرکے مفید اضافوں اور ترمیمات کے ساتھ کتابی شکل میں شائع کرکے زیادہ نافع اور ٹیمپریری کے بجائے مستقل ودیرپا بنادیاہے۔
زیر تبصرہ کتاب ’’تمباکو اور اسلام‘‘ انسدادِ تمباکونوشی کی طرف ایک اچھی پیش رفت اور مناسب کوشش ہے اور اس اعتبار سے منفرد بھی کہ اس میں تمباکو کی حقیقت، ماہیت، مضرت، اباحت، حلت، حرمت اور طبی وسماجی حیثیت ہر ایک سے محققانہ بحث کی گئی ہے، کتاب میں