’’تمباکو اور اسلام‘‘ کے مصنف مولانا حفظ الرحمن اعظمی ندوی صاحب نے بلا شبہ اس کتاب کی تیاری میں بے حد عرق ریزی فرمائی ہے اور انتہائی محققانہ انداز سے مواد جمع کرکے ایک گراں قدر خدمت انجام دی ہے، جس کے لیے وہ مبارکباد کے مستحق ہیں ۔آپ کی یہ تصنیف پانچ ابواب پر مشتمل ہے، جس کے پہلے باب میں مصنف نے تمباکو کا علمی اور تاریخی پسِ منظر پیش کیاہے جو تمباکو کے نام، اس کی ماہیت و خواص، تاریخ، عرب، مسلم ممالک اور بر صغیر میں اس کی آمد کے علاوہ تمباکو کی طبی حیثیت اور اس کے استعمال کے خلاف ردِ عمل جیسے موضوعات کا احاطہ کرتاہے۔ یہ جان کر حیرت ہوتی ہے کہ سائنسی اعتبار سے تمباکو کے مضر انجام سے لاعلم ہونے کے باوجود اوّلین دور کے حکماء اور صلحاء نے اس کے استعمال کی کس طرح مخالفت کی اور اس کے استعمال کرنے والوں کے خلاف سخت ترین سزائیں تک تجویز کرڈالیں ۔
باب دوئم میں مصنف نے تمباکو کی اباحت کے بیان میں مواد اکٹھا کیاہے تاہم ایک حقیقت جو یہاں بھی پوری وضاحت سے سامنے آتی ہے، وہ یہ کہ گو بعض احناف ، مالکیہ ، شافعیہ، حنابلہ اور سلفی علماء نے تمباکو کی حرمت کو صحیح قرار نہیں دیاہے تاہم اس کی تعریف یا توضیح یہاں مفقود ہے۔مثلاًمولانا اشرف علی تھانوی کے نزدیک جو حکم دواؤں کا ہے وہی اس کا ہے یعنی جائز بلاکراہت مگر اس میں بدبو ہے سو مسجد میں جانے کے وقت منہ صاف کرے۔مفتی محمد شفیع صاحب اباحت کی تائید کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ بلاضرورت پئے تو مکروہِ تنزیہی ہے اور ضرورت میں کسی قسم کی کراہت نہیں ۔ منہ صاف کرنا بدبو سے ہرحال میں ضروری ہے۔ اباحت کی تائید کرنے والے شیخ احمد مالکی کے نزدیک تمباکو اس کے لیے حرام ہے جس کی عقل کو زائل کردے۔
باب سوئم میں تمباکو کی حرمت سے متعلق مباحث شامل کیے گئے ہیں اور یہاں بھی