پہنچے ہیں اس کے متعلق تحریر فرماتے ہیں ۔
’’دلائل و تحقیقات کی روشنی میں یہ کہا جاسکتاہے کہ تمباکو شراب کی طرح حرام اور نجس تو نہیں ہے لیکن اسے مکروہِ تحریمی کہا جاسکتاہے۔یہ قول میرے نزدیک اعدل الاقوال ہے۔اس لیے تمباکو استعمال کرنا ، اس کی کاشت کرنا اور خرید و فروخت کرنا شریعت کی روح کے منافی ہے بلکہ یہ ایک غیرشرعی فعل ہے۔ اس کے ذریعے کمائی ہوئی رقم کو علماء نے سحت(حرام)کہاہے۔ اس رقم سے کوئی عبادت درست نہیں ۔ تمباکو کے فروغ میں کسی طرح کا تعاون ، تعاون علی الشر ہوگا۔ تمباکو نوش علمائے دین کو امامت، خطابت، تدریس اور افتاء جیسے اہم عہدوں سے دور رکھنا چاہیے‘‘۔
(ماخوذ از کتاب ص ۱۴۶)
کتاب کے مطالعہ سے اندازہ ہوتاہے کہ مؤلف کی رائے مضبوط اور نقلی و عقلی دونوں طرح کے دلائل پر مبنی ہے اور یہ نہ صرف مؤلف موصوف کی رائے اور تحقیق ہے بلکہ قدماء میں ’’شرحِ مراقی الفلاح‘‘ کے مصنف حسن بن عمار شرنبلالی، حکومت ِ عثمانیہ کے مفتی اعظم شیخ الاسلام محمد بن سعد الدین حنفی، علامہ حصکفیؒ، ریاض الصالحین اور الاذکار للنووی کے شارح ابن علان صدیقی شافعی اور دورِ حاضر کے علماء میں عبدالعزیز بن عبداللہ بن بازسابق مفتی اعظم سعودی عرب، عبدالعزیز بن عبداللہ آل شیخ موجودہ مفتی اعظم سعودی عرب، مصر کے سابق شیخ الازہر محمود شلتوت، سید طنطاوی، محمد فرید وجدی، احمد الشرباصی، ڈاکٹر سعید رمضان، شیخ ابوبکر الجزائری، سید سابق، ڈاکٹر یوسف القرضاوی اور ہندوستان کے علماء میں شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی، نواب قطب الدین خاں شارح ’’مشکوٰۃ المصابیح‘‘ مولانا محمد سورتی، محدثِ جلیل حیدر حسن خاں ٹونکی، مولانا نذیر حسین محدث دہلوی، مولانا ثناء اللہ امرتسری، مولانا عبدالرحمن مبارکپوری اور مولانا عبید اللہ رحمانی مبارکپوری جیسے اکابر علماء اور علومِ شریعت پر گہری نظر رکھنے والے اساتذۂ وقت کی رائے وہی ہے جسے مؤلف موصوف نے پیش کیاہے۔
مؤلف موصوف نے تمباکونوشی سے متعلق نہ صرف فقہی اعتبار سے سیر حاصل بحث کی ہے بلکہ اس کے ساتھ تمباکو کی حقیقت ، اس کا علمی و تاریخی پسِ منظر ، اس کی تاریخ، طبی