ہے ، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے’’ھو الذی خلق لکم ما فی الأرض جمیعاً ‘‘ (البقرۃ:۲۹)اور اللہ تعالیٰ حرام شے سے احسان کا اظہار نہیں فرمائیں گے،لہذا ہر پاکیزہ چیز ہی حلال وجائز ہوگی،علامہ ابو البرکات عبد اللہ بن احمد نسفی آیت مذکورہ کی تفسیر میں تحریر فرماتے ہیں :
’’ و قد استدل الکرخی و أبوبکر الرازی والمعتزلۃ بقولہ(خلق لکم)علیٰ أن الأشیاء التی یصح أن ینتفع بھا خلقت مباحۃ فی الأصل‘‘۱؎
ترجمہ: ’’کرخی ابوبکر رازی اور معتزلہ نے اللہ کے قول’’خلق لکم‘‘سے اس بات پر استدلال کیا ہے کہ جن اشیاء سے انتفاع کیا جاسکتا ہے وہ اصل میں مباح وجائزپیدا کی گئی ہیں ‘‘
لہٰذا ضرر رساں چیزیں اصل میں حرام ہونگی،اس کی تائید امام احمد اور ابن ماجہ وغیرہ کی اس روایت سے ہوتی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
’’لاضرر ولا ضرار‘‘ ۲؎ نہ اپنے کو نقصان پہنچانا جائز ہے اور نہ دوسرے کو، اس حدیث سے ضرر رساں اشیاء کی اصل حرمت ثابت ہوتی ہے، حافظ زین الدین عبد الرؤوف مناوی حدیث بالا کی شرح میں تحریر فرماتے ہیں :
’’و فیہ أن الأصل فی المضار أی مؤلمات القلوب بعد البعثۃ التحریم، ذکرہ الامام الرازی،أما المنافع فالأصـل فیہـا الابـاحۃ لآیۃ ’’خلق لـکم مـا فـی الأرض جمیعاً ‘‘۳؎
ترجمہـ: ’’ اس حدیث سے یہ مستنبط ہوتا ہے کہ بعثت کے بعد نقصان دہ
------------------------------