حالت میں حقہ کش بجز اس کے کہ اپنے سر کو تھام کرچپ بیٹھ جائے یا زمیں پر پڑجائے کوئی اور کام کرنے کے قابل نہیں رہتا،اور یہی حالت تمباکو کھانے میں بھی ہوتی ہے ،پس ایسی مضر چیز کو شریعت کب جائز رکھ سکتی ہے ،اور حقہ کشی اور تمباکو خوری کی عادت ہوجانے سے اس کااصلی ضرر اور اسکا اثر مرتفع نہیں ہوتاہے،بلکہ اس کا ضرر محسوس نہیں ہوتا ہے ، دیکھو جو لوگ افیون کی زیادہ مقدار کھانے کے عادی ہوجاتے ہیں ان کو افیون کا ضرر محسوس نہیں ہوتامگر کیا افیون کا جو ضرر ہے وہ ان سے مرتفع ہوجاتاہے ؟ہم نے مانا کہ تمباکوجیسی مضر چیز کی عاد ت کرلینے سے اس کا ضرر مرتفع ہوجاتا ہے ،لیکن شریعت نے اس کی کہاں اجازت دی ہے کہ ایسی مضر چیز کو استعمال کرکے اس کے عادی بنو،اور اپنے تئیں اس کا ایسا محتاج بنا کر رکھو کہ بغیر اس کے راحت اور چین میں خلل واقع ہو ،وقت پر نہ ملنے سے پیٹ پھول جائے،پائخانہ نہ آئے،کسل و کاہلی اوربدمزگی پیدا ہو ، علا وہ بریں حقہ پینے میں بجز اس کے کہ منہ سے بدبو آئے او ر کچھ مال اور وقت ضائع ہو اور کیا دھراہے پس تمام مسلمانوں کو بالخصوص اہل حدیث ومتبعین سنت کو حقہ پینے اور تمباکو کھانے سے احتراز واجتناب چاہیے،اسی طرح ناک میں تمباکو بھرنے کی عادت ڈالنے سے بھی بچنا چاہیے اگرچہ ناک میں تمباکو کے استعمال کرنے سے وہ ضرر نہیں ہوتاجو اسکے کھانے اور پینے سے ہوتا ہے مگر اس کی بھی عادت ڈالنی اچھی بات نہیں ،اور یہ مسئلہ کہ نشے میں اصل اباحت ہے علی الاطلاق نہیں ہے بلکہ ان اشیاء میں اصل اباحت ہے جو مضر نہیں ہیں ،اور جو اشیاء مضر