’’الذی یقتضی قواعد أئمتنا فی باب الأطعمۃ حرمتھا اذا أدت إلی إسکار أو إضرار بالعقل أو بالبدن ، لأن استعمال المسکر محرم لاسکارہ ، و إستعمال المضر بالعقل أو بالبدن محرم لاضرارہ ‘‘ ۱؎
ترجمہ: ’’ کھانے کی اشیاء میں ہمارے ائمہ کے قواعد وضوابط ان کی حرمت کے متقاضی ہیں ،جب وہ نشہ تک پہنچادیں ،یا بدن یا عقل کو ضرر پہنچادیں ،اس لیے کہ نشہ آور چیز کا استعمال اس کے نشہ لانے کی وجہ سے حرام ہے ،اور عقل یا بدن کے لیے ضرر رساں چیز کا استعمال اس کے ضرر کی وجہ سے حرام ہے ‘‘
عبداللہ باسودان نے اپنی کتاب فیض الاسرار میں تمباکوکی حرمت پر جلیل القدر علماء کے اقوال نقل کیے ہیں ۔
ابوبکرالاھدل نے اس کی حرمت پرایک رسالہ بعنوان ’’تحذیر الاخوان عن شرب الدخان‘‘ تالیف کیا ہے ، صالح بلقینی بھی یہی موقف رکھتے تھے،عبداللہ بن علوی حدادحسینی یمنی حرمت کے قائل تھے اور اس کے بارے میں بہت سختی سے کام لیتے تھے ، علوی بن احمد سقاف کا رجحان بھی یہی ہے، اور انہوں نے ایک کتابچہ ’’قمع الشھوۃ عن تناول التنباک والکفتۃ والقات والقھوۃ ‘‘ تالیف کیا ہے ۔
سید عبد اللہ شاطری نے ایک تمباکو نوش کو قصیدہ لکھ کر بہت سخت الفاظ میں تنبیہ کی تھی جس کا ایک شعر درج ذیل ہے :
وخلعت جلباب الحیاء وقلت ذا
حـریـۃ أخـطأت فـی مــرمـــاکا
مذکورہ بالا اقوال وفتاوی سے بخوبی واضح ہوجاتا ہے کہ اکثر شوافع
------------------------------