لاکے پھر قید کیا وادیٔ بے بس میں ہمیں
بند شوکیس میں تو جب بھی نظر آتی ہے
دل تڑپ اٹھتا ہے ایک آہ نکل جاتی ہے
تجھ کو پانے کیلے بیچ کے ’’توڑے‘‘ہم نے
پچھلے ریکارڈ سبھی پینے کے توڑے ہم نے
شارٹج مین بھی تیرے زہر نچوڑے ہم نے
پی کے پھینکے ہوئے ٹرے بھی نہ چھوڑے ہم نے
منہ تری کھوج سے ہرگز نہیں موڑے ہم نے
بحر ظلمات میں دوڑا دیے گھوڑے ہم نے
پھربھی ظالم تیری فطرت نہ بدل پائے ہم
جال سے ترے نہ افسوس نکل پائے ہم
فتنہ پرور ہے ستم کیش ہے پتھر دل ہے
حق میں عشاق کے تو ایک سم قاتل ہے
صرف بیجا ترا جادہ ہے تری منزل ہے
مختصر یہ کہ محبت تری لاحاصل ہے
مذکورہ بالا سطور سے بخوبی واضح ہوجاتاہے کہ علمائے احناف کی معتدبہ