اور پھر زیادہ تاکید کرتے ہوئے دوسری جگہ فرماتے ہیں:
{وَاَعِدُّوْا لَہُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّۃٍ وَمَّنْ رِّبَاطِ الْخَیْْلِ تُرْہِبُوْنَ بِہٖ عَدُوَّ اللّٰہِ وَعَدُوَّکُمْ وَاٰخَرِیْنَ مِن دُوْنِہِمْ ج لاَ تَعْلَمُوْنَہُمْ ج اللّٰہُ یَعْلَمُہُمْ ط وَمَا تُنفِقُوْا مِنْ شَیْْئٍ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ یُوَفَّ اِلَیْْکُمْ وَاَنْتُمْ لاَ تُظْلَمُوْنَ}2
اور (مسلمانو!) جس قدر طاقت اور گھوڑوں کی جتنی چھائو نیاں تم سے بن پڑیں، ان سے مقابلے کے لیے تیار کرو، جن کے ذریعے تم اللہ کے دشمن اور اپنے( موجودہ) دشمن پر بھی ہیبت طاری کرسکو، اور ان کے علاوہ دوسروں پر بھی جنھیں ابھی تم نہیں جانتے، (مگر) اللہ انھیں جانتا ہے۔ اور اللہ کے راستے میں تم جوکچھ خرچ کروگے، وہ تمہیں پورا پورا دے دیاجائے گا، اور تمہارے لیے کوئی کمی نہیں کی جائے گی۔
اللہ تعالیٰ نے ہتھیار رکھنے کا مقصد بھی خود ہی بتادیا کہ اس کا مقصد اللہ کے دشمنوں( جو کہ حقیقت میں تمہارے بھی دشمن ہیں) کو مرعوب رکھنا ہے، تاکہ یہ تمہارے ساتھ مقابلے کی ہمت نہ کرسکیں۔ پہلے زمانہ میں گھوڑوں ، تلواروں ، نیزو ں وغیرہ سے قوت ہوتی تھی، آج اس کی جگہ فوج کی قوت کے لیے جودوسرے سامان ہیں ان کو زیادہ سے زیادہ تیار رکھنا چاہیے۔
بچو! جہاد کے لیے ضروری ہے کہ بہادری سے لڑا جائے اور لڑائی کے میدان سے بھاگا نہ جائے۔ چناںچہ اس کے لیے اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:
{یٰاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اِذَا لَقِیْتُمُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا زَحْفاً فَلاَ تُوَلُّوْہُمُ الْاَدْبَارَo وَمَنْ یُّوَلِّہِمْ یَوْمَئِذٍ دُبُرَہٗ اِلاَّ مُتَحَرِّفاً لِّقِتَالٍ اَوْ مُتَحَیِّزًا اِلٰی فِئَۃٍ فَقَدْ بَآئَ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰہِ وَمَاْوٰہُ جَہَنَّمُ ط وَبِئْسَ الْمَصِیْرُ}1
اے ایمان والو! جب کافروں سے تمہارا آمنا سامنا ہوجائے، جب کہ وہ چڑھائی کر کے آرہے ہوں، تو ان کو پیٹھ مت دِکھائو۔ اور اگر کوئی شخص کسی جنگی چال کی وجہ سے ایساکررہا ہو، یااپنی کسی جماعت سے جاملنا چاہتاہو، اس کی بات تو اور ہے، مگر اس کے سوا جو شخص ایسے دن اپنی پیٹھ پھیرے گا تو وہ اللہ کی طرف سے غضب لے کر لوٹے گا، اور اُس کاٹھکانا جہنم ہوگا، اور وہ بہت بُرا ٹھکانا ہے۔
یعنی اپنی فوج سے مل کر مضبوط حملے کی منصوبہ بندی کے لیے پیٹھ پھیری جاسکتی ہے یالڑائی کی حکمت یاکوئی چال چلنے کے لیے بھی پیٹھ پھیری جاسکتی ہے، بھاگنے کے لیے اگر کوئی پیٹھ پھیرے گا تو اس پر اللہ کاغضب ہوگا اور اس کا ٹھکانا دوزخ ہوگا۔
بچو! اللہ تعالیٰ کسی پر ظلم نہیں کرناچاہتے، کافر اگر لڑائی بند کرنا اور صلح کرنا چاہیں تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
{وَاِنْ جَنَحُوْا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَہَا وَتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ ط اِنَّہٗ ہُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ}2
اور اگر وہ لوگ صلح کی طرف جھکیں تو تم بھی اس(صلح) کی طرف جھک جائو، اور اللہ پر بھروسہ رکھو۔ یقین جانو وہی ہے جو ہر بات سنتا،