پاس کچھ تحفے بھیج کر دیکھتی ہوں کہ مرے ایلچی کیا جواب لاتے ہیں۔ جب ایلچی تحفے لے کر آئے تو حضرت سلیمان ؑنے فرمایا: تمہارے تحفے تم ہی کو مبارک ہوں ،اللہ نے جوکچھ مجھے دیا ہے وہ اس سے کہیں بہتر ہے جو تمہیں دیا ہے، تم انھیں واپس لے جائو۔ اب ہم ان کے پاس ایسا لشکر لے کر پہنچیں گے جن کے مقابلے کی ان میں تاب نہیں ہوگی اور انھیں وہاں سے اس طرح نکالیں گے کہ وہ ذلیل ہوں گے، اور ماتحت بن کر رہیں گے۔
جب ایلچی نے واپس جاکر بلقیس سے حضرت سلیمان ؑکی باتیں کہیں تو وہ دربار میں حاضر ہونے کی تیاریاں کرنے لگی۔ ایلچی کے واپس جانے کے بعد حضرت سلیمان ؑنے اپنے دربار والوں کو حکم دیا کہ ملکہ کے تخت کو ہمارے پاس لاکر حاضر کرو۔ ایک بڑا دیو بولا کہ میں اس سے پہلے کہ آپ دربار سے اٹھ جائیں آپ کی خدمت میں پیش کردوں گا، مگر ایک اور شخص کہ جس کو اللہ تعالیٰ نے کتاب کاعلم دیا تھا، اس نے کہا: میں آپ کی آنکھ جھپکنے سے پہلے تخت لے آئوں گا۔ چناںچہ جب سلیمان ؑ نے عین اسی لمحے وہ تخت اپنے پاس رکھا ہوا دیکھا تو فرمایا کہ یہ میرے اللہ کاامتحان ہے کہ میں اس کاشکر ادا کرتاہوں یا نہیں، اور جوکوئی شکر کرتا ہے تو وہ اپنے ہی فائدے کے لیے شکر کرتا ہے اور اگر کوئی ناشکری کرے تو میرا پروردگار بے نیاز ہے،کریم ہے۔
حضرت سلیمان ؑ نے درباریوں سے کہا کہ اس تخت کی صورت تبدیل کردو، تاکہ ہم اسے آزمائیں کہ وہ اپنے تخت کو پہنچانتی بھی ہے یانہیں؟ چناںچہ تخت کی صورت بدل کر بچھادیا گیا اور بلقیس آگئی تو اس سے پوچھا گیا کہ کیا تمہارا تخت بھی ایسا ہی ہے؟ بلقیس نے جواب دیا: گویا یہ تو وہی ہے او رہم تو پہلے ہی آپ کی شان وشوکت اور قوت وطاقت کو جانتے تھے اور آپ کو مان گئے تھے۔ جس چیز کو یہ اللہ کے سوا پوجتی تھی اسی کی نحوست نے اس کو اب تک سلیمان کے پا س آنے سے روک رکھا تھا۔ پھر بلقیس سے محل میں جانے کو کہا گیا، جب اس نے حضرت سلیمان ؑ کا محل دیکھا جوشیشے کابنا ہوا تھا اور معلوم ہوتا تھا کہ پانی سے بھرا ہوا ہے۔ بلقیس نے اس میں سے گزرنے کے لیے اپنے پائینچے اوپر اٹھائے اور اپنی دونوں پنڈلیاں کھول دیں۔ حضرت سلیمان ؑ نے دیکھا تو فرمایا: یہ محل ہے جس میں شیشے جڑے ہوئے ہیں۔ غرض جب بلقیس کو اپنے مذہب کی غلطی معلوم ہوئی تو پکار اٹھی :اے اللہ ! میں نے جو اتنی مدت تک سورج کی پوجا کی، اور میری وجہ سے میری قوم بھی اس کو پوجتی رہی تو میں نے اپنے اوپر ظلم کیا، اب میں سلیمان کے رب، تمام جہانوں کے پالنے والے پر ایمان لاتی ہوں۔
بچو! حضرت سلیمان ؑ اتنے بڑے نبی اور اتنے بڑے بادشاہ تھے کہ انسان، جن، پرندے اور ہوا سب ان کے تابع تھے،مگر آپ غریبوں اور بے کسوں کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاتے تھے اور اپنے ہاتھ سے چٹائیاں اور ٹوکریاں بنا کر روزی