چاہیے، اس لیے اللہ تعالیٰ سے عرض کیا: یا اللہ! مجھے ان کاپتہ نشان بتلادیجئے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ایک مچھلی اپنے ساتھ رکھ لو اور جس جگہ یہ مچھلی تمہارے ہاتھ سے نکل کر سمندر میں داخل ہو جائے وہی تمہاری منزل ہوگی۔ چناںچہ حضرت موسی ؑخادم کو ساتھ لے کر چل دیے، یہاں تک کہ یہ دونوں چلتے چلتے ایسی جگہ پہنچ گئے جہاں دوسمندر ملتے تھے، موسی ؑ نے وہاں کچھ دیر آرام کیا، اسی دوران مچھلی ان کے سامان سے نکل کر سمندر میں داخل ہوئی اور خادم یہ دیکھ رہا تھا ، موسیٰ ؑ جب جاگے تو خادم یہ واقعہ حضرت موسی ؑکو بتانابھول گیا اور دونوں آگے بڑھتے چلے گئے، کچھ دور جاکر انھوں نے اپنے خادم سے کہا:میں تھک گیاہوں، بھوک بھی لگی ہے، وہ مچھلی لائو ،تا کہ اس میں سے کچھ کھالیں۔ خادم نے کہا: جب چٹان پر آپ آرام کر رہے تھے تو اس مچھلی نے دریا کاراستہ لے لیاتھا۔ حضرت موسیٰ ؑکو تواسی جگہ کی تلاش تھی، اس لیے پھر وہ اسی جگہ پر واپس چلے آئے۔ وہاں انھوں نے اللہ کے ایک بندے کو دیکھا جن کو اللہ نے مخصوص علم عطا فرمایا تھا، حضرت موسی ؑنے ان سے کہا کہ اللہ نے جوکچھ آپ کو علم دیا ہے وہ مجھے بھی سکھادیجیے۔ مگر انھوں نے جواب دیا کہ تم صبر نہ کرسکو گے۔اور جن باتوں کی آپ کو پوری پوری واقفیت نہیں ہے ، ان پر آپ صبر کر بھی کیسے سکتے ہیں؟موسیٰ ؑنے کہا: ان شاء اللہ آپ مجھے صابر پائیں گے، اور میں آپ کے کسی حکم کی خلاف ورزی نہیں کروں گا۔
آخرجب انھوں نے زیادہ اصرار کیا تو اس اللہ کے بندے نے کہا کہ تم میرے ساتھ رہنا چاہتے ہو تو شرط یہ ہے کہ میں جو کام کروں اس کے متعلق مجھ سے کوئی بات نہ کرنا اور نہ ہی کوئی سوال پوچھنا، یہاں تک کہ میں خود اس کی وضاحت نہ کردوں۔ حضرت موسیٰ ؑ نے یہ شرط منظور کرلی اور دونوں سفر پر روانہ ہوگئے۔ جب دونوں ایک کشتی پر سوار ہوئے تو اس اللہ کے بندے نے کشتی میں سوراخ کردیا۔ حضرت موسیٰ ؑاس پر ناراض ہوئے اور کہا کہ کیا تم نے اس لیے کشتی میں سوراخ کیا ہے کہ اس میں سوار لوگ ڈوب جائیں ۔یہ آپ نے بڑا خوفناک کام کیا ہے۔انھوں نے شرط یاد دلائی تو آپ نے کہا کہ میں بھول گیا تھا اب ایسا نہیں ہوگا۔ آگے بڑھے تو خشکی پر ایک لڑکا ملا جسے انھوں نے قتل کرڈالا، اس پر حضرت موسیٰ ؑ بگڑ گئے اور کہا : آپ نے بغیر کسی قصور کے اس کومار ڈالا، آپ نے بہت بُرا کیا، اس پر انھوں نے کہا کہ میں نے کہا تھا کہ آپ میرے ساتھ نہ چل سکیں گے، پھر دونوں میں دوبارہ قول وقرار ہوا۔
چلتے چلتے یہ ایک گائوں میں پہنچے جہاں کے لوگوں نے ان کو اپنا مہمان بنانے سے انکار کردیا۔ مگر ان دونوں نے دیکھا کہ ایک دیوار گرنے والی ہے، اس کو انھوں نے درست کردیا۔ حضرت موسیٰ ؑپھر صبر نہ کرسکے اور کہا کہ اگر آپ چاہتے تو ان سے اس کام پر مزدوری مانگ لیتے۔ اللہ کے بندے حضرت خضر ؑنے حضرت موسیٰ ؑسے کہا کہ اب ہم دونوں ایک ساتھ نہیں رہ سکتے، مگر جدا ہونے سے پہلے ان باتوں کامطلب سمجھ لیجیے۔ کشتی چند غریب آدمیوں کی تھی جو اسے کرائے پر