میں مرنے والوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔
جدید تحقیق کے مطابق بیڑی و سگریٹ پینے والے اپنی صحت پر ظلم تو کرتے ہی ہیں ، دھوؤں سے انہیں بھی متاثر کرتے ہیں جو ان کے آس پاس میں موجود ہوں ۔ بڑی عجیب بات یہ ہے کہ سگریٹ کے پیکٹ پر اس کے مہلک ہونے کی بشارت بھی واضح طور پر لکھی ہوتی ہے اور سرِ عام بیچنے اور پینے کی اجازت بھی ہوتی ہے۔ زیر نظر کتاب میں مولانا حفظ الرحمن صاحب نے تمباکو کا معروضی مطالعہ پیش کیاہے جو پانچ ابواب پر مشتمل ہے۔ پہلے باب میں تمباکو کی حقیقت اور اس کا تاریخی پسِ منظر پیش کیاگیاہے۔ دوسرے باب میں تمباکو کی حلت و حرمت پر بحث کی گئی ہے۔ جب کہ تیسرا باب حرمت کے بیان میں ہے۔ چوتھے باب میں اس کے متعلق فتاوے جمع کیے گئے ہیں اور پانچویں باب میں اس کے جواز وعدمِ جواز کے دلائل پیش کیے گئے ہیں ۔ مصنف نے اس پوری بحث کے بعد قضیہ کو بالآخر ایسا رُخ دیا ہے جس سے قاری تمباکو کے عدمِ مباح کا قائل ہوئے بنا نہیں رہ سکتا اور یہی مصنف کا بھی رجحان معلوم ہوتاہے۔ بہرحال یہ سچ ہے کہ تمباکو انسانی زندگی کے لیے مضر ہے اور اس سے پرہیز ناممکن بھی نہیں ۔
مولانا حفظ الرحمن مبارکباد کے مستحق ہیں جنہوں نے اس موضوع پر اہم علمی و تحقیقی کام کیاہے۔ ضرورت ہے کہ اس کتاب کو سماج میں پوری طرح پھیلا دی جائے۔ مجھے امید ہے کہ اس سے سماج میں بڑی تبدیلی رونما ہوگی۔ کتاب پر ہندوستان کے ممتاز عالمِ دین اور ادیب مولانا سعید الرحمن اعظمی کے پیش لفظ نے کتاب کی اہمیت مزید بڑھادی ہے۔
ہفت روزہ ’’عالمی سہارا‘‘ شمارہ ۱۸؍اکتوبر ۲۰۰۳ء
تبصرہ بقلم مولانا عبدالقادر شمس قاسمیؔ