نشین ہوجائیں گی۔
مثلاً: استاد نے حضرت آدم ؑ کاقصہ بچوں کے سامنے بیان کیا۔ پھر جب قرآن مجید میں حضرت آدم ؑ کا نام پڑھے گا تو اس کے سامنے وہ تمام قصہ آجائے گا جو استاد نے بیان کیا ہے۔
ایک طرف یہ جذبہ کار فرما تھا تو دوسری طرف اپنی نااہلیت اورمصروفیت ، آخر جذبہ غالب آیا اور باوجود نااہلی کے مقاصدِ بالا کو قلم کے ذریعہ سے مرتب کرنا شروع کردیا۔ ایک سال ہوگیا ، لیکن تکمیل نہ کرسکا۔
مولانا عبدالقیوم صاحب ندوی سے اپنے ان خیالات اور جذبات کااظہار کر کے جزوی مدد لی۔ مگر ایک طرف مصروفیات کی کثرت تھی تو دوسری طرف میرے سامنے اس اہم کام کی تکمیل میں پیش آنے والی مشکلات تھیں، اس وجہ سے اس سلسلہ میں قدم آگے نہ بڑھ سکا۔ آخر اس سال اللہ تعالیٰ نے حج کی توفیق دی۔ موقع کو غنیمت سمجھتے ہوئے اپنے ساتھ یہ اوراق بھی لیتا گیا، مکہ معظمہ میں فرصت نہ مل سکی۔ مدینہ طیبہ میں حضور سرورکائناتﷺکے سایۂ عاطفت میں الحمد للہ اس کومکمل کرلیا۔ اس سلسلہ میں حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی ؒ کی کتاب’’ نشر الطیب فی ذکر النبی الحبیب‘‘ سے بھی مدد لی گئی۔
اب یہ خوف دامن گیر تھاکہ اپنی نااہلی کے باوجود کتاب تو مکمل کرلی، لیکن اس میں اگر کچھ غلطیاں رہ گئیں تو لینے کے دینے پڑ جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے مدد فرمائی۔ مکہ معظمہ میں حضرت مولانا غلام حبیب صاحب نقشبندی سے ملاقات ہوچکی تھی، نظریں اُدھر گئیں اور ان سے نظر ثانی کی درخواست کی، انھوں نے بکمال مہربانی منظور فرمالیا۔ اس طرح حضور سرورکائنات ﷺ کے شہر مدینہ منورہ میں اللہ کی مدد سے یہ کتاب مکمل ہوئی، صرف حضورﷺ کاہی فیض اور رحمت سمجھتاہوں اور اس کا ثواب انہی کی روح پاک کوپہنچاتاہوںاور اس وقت لب پر یہ مصرعہ جاری ہے :
گر قبول افتد ز ہے عزو شرف
ترجمہ: اگر قبول ہوجائے تو یہ ہمارے لیے بہت عزت وشراف کی بات ہے۔
٭ … ٭ … ٭