ہیں۔ دوسری طرف رومی شہنشاہیت اور ایرانی شہنشاہیت اسلام کو مٹانے کے لئے پرتول رہیں تھیں۔ ان پر ہول حالات میں اﷲ رب العزت کی تائید ہی تھی۔ جس نے ابوبکرؓ کی امامت اور صحابہ کرامؓ کے اجماع واتفاق سے اسلام کو بچایا اور خوف کو امن سے بدل دیا۔ تمام صحابہؓ نے ہمدست وہم زبان ہوکر تمام مدعیان نبوت اور ان کے پیروؤں کو فنا کر دیا اور ان سبھوں کا عقیدہ یہی تھا کہ محمدﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں جو نبوت کا عویٰ کرے۔ وہ اور اس کے پیرو کشتنی وگردن زدنی ہیں مرتد ہیں، کافر ہیں۔
عقل کا تقاضہ بھی یہی ہے نبوت آدم علیہ السلام سے شروع ہوئی اور محمدﷺ پر ختم ہوگئی۔ صدیق اکبر اور صحابہ کرامؓ کی صورت میں نبی ووحی کی ذمہ داری غیر نبی وغیرصاحب وحی نے سنبھالی۔ انسان کی دنیاوی زندگی میں بالکل نیا موڑ بلکہ ایک نیا راستہ آگیا۔ وحی ختم اور نبی کی جانشینی غیر نبی کو کرنی پڑی۔ مگر ابوبکرؓ، عمرؓ، عثمانؓ، علیؓ نے دوسرے مؤمنین کے تعاون سے غیر نبی ہوتے ہوئے نبی کے تمام فرائض خلیفہ وجانشین بن کر ادا کئے۔ اسلام کا جھنڈا اونچا رکھا۔ اسلام کو بچایا، پھیلایا اور اسی طرح عہد بعہد چودہ سوسال سے ہوتا چلا آرہا ہے۔ جن فرائض کو غیر نبی چودہ سو سال سے انجا دیتے آرہے ہیں۔ پھر ان فرائض کو انجام دینے کے لئے کسی نئے نبی کی آمد فضول وعبث ہے اور اﷲ رب العزت کا کوئی کام عبث نہیں ہوتا۔ لہٰذا محمدﷺ پر دین کامل ہوگیا اور چودہ سو سال سے قائم وباقی ہے۔ اب اسلامی احکام میں نہ تبدیلی ہوگی نہ فسخ ہوگا۔ پھر کسی نبی کی آمد کیوں؟ اگر شریعت اسلامی میں نسخ وتبدیلی کا امکان ہے تو اسلام کو کامل دین کہنا غلط ہوگا۔ قرآن نے اسلام کو دین کامل کہا ہے۔ قرآن سچا ہے اور قرآن کے خلاف بولنے والے جھوٹے ہیں۔
اجماع صحابہؓ
ختم نبوت پر تمام صحابہؓ عقیدۂ وعمل کے لحاظ سے متفق ہیں۔ یعنی محمدﷺ کے بعد نہ نبوت ہے نہ وحی ہے۔ حضور علیہ السلام کے صحابہؓ متفق ہوکر مدعیان نبوت سے لڑے اور ان کو فی النار کیا۔
صحابہ کرامؓ سے مروی جتنے اقوال بھی ہیں۔ ان میں محمدﷺ پر نبوت ختم ہونے کا اعلان ہے۔ اس عقیدے کے منکر کو کافر ومرتد قرار دے کر اس کے خلاف قتال، دینی فریضہ تسلیم کیاگیا ہے۔ چنانچہ حضرات صدیق اکبرؓ، عمر فاروقؓ، عثمان ذی النورینؓ، علی المرتضیٰؓ، ام المؤمنین عائشہ صدیقہؓ، زبیر بن عوامؓ، سعد بن ابی وقاصؓ، عبداﷲ بن عمرؓ، امام حسنؓ، سلمان فارسیؒ، معاذ بن جبلؓ، ابوسعید خدریؓ، عباسؓ، انسؓ، اسماء بنت عمیسؓ زید بن حارثہؓ، زید بن ثابتؓ، حذیفہ بن یمانؓ،