جواب بدل جاتا۔ نکیرین جب نبی کے متعلق سوال کرتے تو محمدﷺ کے بعد آنے والے نئے نبی کا نام لیتا۔ مگر حدیثوں میں وضاحت ہے اور تمام مسلمانوں کا متفقہ عقیدہ ہے کہ محمدﷺ آخری نبی ہیں اور قیامت تک انہی کی نبوت کے بارے میں سوال وجواب ہوگا۔
قادیانی باسیو! دوروزہ دنیا کے آرام وراحت عیش وعشرت دولت واقتدار کے لئے ابدی آخرت کو تباہ نہ کرو۔ دنیا کی زندگی کسی نہ کسی طرح آرام یا تکلیف سے گزر جائے گی۔ مگر آخرت کی زندگی ہمیشگی کی زندگی ہے۔ وہاں کی راحت کبھی ختم نہ ہوگی اور وہاں کی مصیبت سے چھٹکارا نہیں ہے۔
ختم نبوت اور اجماع امت
قرآن مجید میں اﷲ رب العزت کا ارشاد ہے: ’’وعداﷲ الذین امنوا منکم وعملوا الصلحت لیستخلفنہم فی الارض کما استخلف الذین من قبلہم ولیمکنن لہم دینہم الذی ارتضیٰ لہم ولیبدلنّہم من بعد خوفہم امنا یعبد وننی لایشرکون بی شیئا (النور:۵۵)‘‘ {اﷲ نے وعدہ کیا تم لوگوں سے جو ایمان لائے اور عمل صالح کئے۔ البتہ ضرور ان کو زمین میں اقتدار خلافت عطا کرے گا۔ جیسے اگلے لوگوں کو خلافت عطا کی اور (اﷲ کا وعدہ ہے) ضرور بالضرور ان کے لئے ان کے دین کو زمین میں مضبوطی سے قائم کرے گا۔ وہ دین جسے اﷲ نے خود ان کے لئے پسند فرمایا ہے اور البتہ ضرور ان کے خوف کو امن سے بدل دے گا۔ لوگ اﷲ کی عبادت کریں گے۔ کسی کو اﷲ کا شریک نہیں ٹھہرائیں گے۔}
اس آیت کریمہ میں اﷲ رب العزت کے متعدد وعدوں کا اعلان ہے اور وعدوں کے اوّلین مخاطب صحابہؓ ہیں جو نزول آیت کے وقت موجود تھے اور کلمہ (منکم) کے مخاطب تھے۔ پہلا وعدہ یہ ہے کہ ان مؤمنین صالحین کو اﷲ رب العزت زمین میں خلافت واقتدار عطا فرمائے گا۔ خلافت کا وعدہ جماعت صحابہؓ سے ہے۔ حالانکہ خلیفہ تو ان میں سے کوئی ایک فرد ہوگا۔ لہٰذا اس کا مفہوم یہی ہوگا کہ ظاہری خلیفہ تو فرد ہوگا۔ لیکن معنوی وحقیقی خلافت تمام صحابہؓ کی ہوگی اور تمام صحابہؓ اس فرد کی خلافت میں شریک ہوں گے۔ یہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ وہ خلافت شورائی جمہوری اور اجماعی ہو۔ ان میں جو خلیفہ کہلائے گا وہ اپنی پوری جماعت صحابہؓ کا نمائندہ اور ترجمان وامام ہوگا۔ اس آیت میں دوسرا وعدہ یہ ہے کہ ان مؤمنین صالحین یعنی جماعت صحابہؓ کا دین ومذہب اﷲ کا پسندیدہ مقبول ومنظور ہے۔ اﷲ رب العزت صحابہؓ کے اسی منظور وپسندیدہ دین کو قائم وراسخ کرے گا۔ یعنی اقتدار بھی ان کو ملے گا اور ان کا دین بھی مضبوطی سے قائم ہوگا۔ نہ ان کے دین