مرزا بشیر الدین محمود اپنی خلافت کو نبوت کا تتمہ سمجھتے ہیں
اور اسے کسی طرح چھوڑنے کے لئے تیار نہیں
واضح رہے کہ موجودہ خلیفہ قادیانی نے اخبار ’’الرحمت‘‘ اور الفضل میں ایک سلسلہ مضامین شروع کر رکھا ہے۔ جن سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ خلیفہ قادیانی اپنی جماعت پر کچھ ایسے بری طرح مسلط ہوچکے ہیں کہ اب ان کی جماعت میں خلیفہ قادیانی کو خلافت سے معزول کر دیئے جانے کے مشورے ہونے لگے ہیں۔ خلیفہ قادیانی کی نوعیت اگر یہی ہے کہ ایک جماعت تبلیغ اسلام کر رہی ہے اور یہ اس کے امام و پیشوا ہیں۔ پھر وہ ان کو معزول کر کے کسی اور صالح آدمی کو امام بنانا چاہتی ہے تو خلیفہ قادیانی گھبراتے کیوں ہیں۔ جو کچھ الزامات ان پر عائد کئے جاتے ہیں۔ ان کو برسر منظر لا کر ان سے اپنی برأت اور صفائی کا اظہار کر دیں اور اپنے کیرکٹر و دیانت پر مخالفوں کو نہ سہی تو کم از کم اپنے آدمیوں کو ہی تنقید کو موقعہ بخشیں۔ مگر خلیفہ قادیانی اپنے متعلق کسی بات کو زیربحث آنے ہی نہیں دیتے۔ بلکہ اس سے اپنا پہلو صاف بچا کر اپنی جماعت کو دوسری بحثوں میں الجھا دیتے ہیں کہ اسلام میں خلیفہ معزول نہیں ہو سکتا۔ حقیقت یہ ہے کہ خلیفہ قادیانی اپنے اعمال کو جو گھناؤنی تصویر زیر عباچھپائے ہوئے ہیں۔ اس کے برسرعام آ جانے سے تھر تھر کاپنتے ہیں اور ایک دنیاوی گدی جو مرزا غلام احمد قادیانی نے قائم کی تھی اسے کسی طرح چھوڑنے کے لئے تیار نہیں۔ بلکہ آئندہ بھی اپنی اولاد کو اسی پر قائم رکھنے اور مالک بنانے کے لئے ابھی سے اپنے بیٹوں کو ’’ہوالناصر‘‘ کہہ کر بڑھا رہے ہیں۔ آخر کیا وجہ ہے کہ سندھ میں جو زمین خرید کی گئی ہے۔ اگر وہ تبلیغ کے مقصد کے لئے ہے تو محمود آباد، ناصر آباد کے نام سے ان کو ریاستی شکل کیوں دی جا رہی ہے؟ موجودہ خلیفہ قادیانی نے کمال چالاکی سے موافق اور مخالف لوگوں کو اس بحث میں الجھا رکھا ہے کہ: ’’خلیفہ معزول ہو سکتا ہے یا نہیں۔‘‘ ہمارے بعض اخبارات بھی اسی بحث میں مبتلا ہو گئے ہیں۔ سب سے پہلے تو یہ امر زیر بحث آنا چاہئے کہ موجودہ خلیفہ قادیانی خلیفہ بھی ہے یا نہیں اور جس نبی کا خلیفہ ہے اور اس نبی کی نبوت کیسی ہے۔ پھر اس کو اس کی اپنی مرزائی جماعت نے ہی کب انتخاب کیا تھا؟ اور وہ کون سے مرزائی تھے جو اس کے خلیفہ ہونے کے انتخاب میں شریک ہوئے۔ مولوی محمد علی لاہوری اور ان کی پارٹی تو پہلے دن سے چیخ رہی ہے کہ ہم بشیر الدین محمود کو اپنا خلیفہ نہیں مانتے۔