دوسرا خود محمدﷺ کا باغی۔ بھلا یہ دونوں ایک دوسرے کے لئے اپنے دل میں نرم گوشہ کیوں نہ رکھیں؟
حضرت علامہؒ نے اس حقیقت کی نشاندہی آج سے اڑتیس برس پیشتر کی۔ تب سے اب تک بالخصوص تقسیم کے بعد، برصغیر پاک وہند کے مسلمانوں پر جو بیتی اسے قادیانی، کمیونسٹ ارتباط کے پس منظر میں دیکھا جائے تو یہ اڑتیس برس اس کی تفسیر نظر آئیں گے۔ اے کاش! ہمارے دانشور اور ہمارے فرمانروا اس پر غور کریں۔
۳…قادیانی مسلمان کہلانے پر اصرار کیوں کرتے ہیں؟
حضرت علامہؒ نے اس بات پر بھی بڑی خوبی کے ساتھ بحث کی ہے کہ قادیانی مسلمانوں کا جزو بنے رہنے پر اصرار کیوں کرتے ہیں؟ ان کے خیال میں ایسا صرف اس لئے ہے: ’’کہ ان کا شمار حلقہ اسلام میں ہو،تا کہ انہیں سیاسی فوائد پہنچ سکیں۔‘‘ (حرف اقبال ص۱۳۷)
ان کے خیال میں اور اس خیال کی صداقت آج روزروشن کی طرح عیاں ہوچکی ہے: ’’قادیانی حکومت سے کبھی علیحدگی کا مطالبہ کرنے میں پہل نہیں کریں گے۔‘‘ (حرف اقبال ص۱۳۸)
اور اس کی وجہ وہی ’’سیاسی فوائد‘‘ جن کی طرف میں نے ابھی حضرت علامہؒ کے حوالے سے اشارہ کیا اور میرے خیال میں حضرت علامہؒ کی یہ عبارت ان سیاسی فوائد کی بڑی اچھی تشریح کرتی ہے۔ جس میںوہ کہتے ہیں: ’’اس امر کو سمجھنے کے لئے کسی خاص ذہانت یا غور وفکر کی ضرورت نہیں ہے کہ جب قادیانی مذہبی اور معاشرتی معاملات میں علیحدگی کی پالیسی اختیار کرتے ہیں۔ پھر وہ سیاسی طور پر مسلمانوں میں رہنے کے لئے کیوں مضطرب ہیں؟ علاوہ سرکاری ملازمتوں کے فوائد کے ان کی موجودہ آبادی جو ۵۶۰۰۰ (چھپن ہزار) ہے۔ انہیں کسی اسمبلی میں ایک نشست بھی نہیں دلاسکتی اور اس لئے انہیں سیاسی اقلیت کی حیثیت بھی نہیں مل سکتی۔ یہ واقعہ اس امر کا ثبوت ہے کہ قادیانیوں نے اپنی جداگانہ سیاسی حیثیت کا مطالبہ نہیں کیا۔ کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ مجالس قانون ساز میں ان کی نمائندگی نہیں ہوسکتی۔‘‘ (حرف اقبال ص۱۳۷،۱۳۸)
مخلوط طریق انتخاب کے باوجود آج بھی پوزیشن قریب قریب وہی ہے جو آج سے اڑتیس برس پیشتر تھی۔ اگر قادیانیوں کو غیرمسلم اقلیت قرار دیا جائے تو ایک طرف ان کی وہ تمام کلیدی ملازمتیں خطرے میں پڑ جاتی ہیں۔ جن کے سہارے قادیانیت کے بھیانک سائے تیزی کے ساتھ ارض پاک پر پھیل رہے ہیں۔ دوسری طرف اسمبلیوں میں انہیں بمشکل ایک آدھ نشست ملتی ہے۔ جب کہ مسلمانوں میں شمولیت کا ڈھونگ رچا کر پنجاب اسمبلی سے سینٹ تک وہ کئی