منتظرہ بیوی نے تو مرزا قادیانی کو ایسا رسوا اور بدنام کیا جس کی انتہا نہیں۔ دنیا کو معلوم ہے کہ وہ اس بیوی کے ملنے سے محروم رہے۔
توہین انبیاء علیہم السلام کا اقراری بیان
تم کہتے ہو میں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام یا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ہتک کی ہے یاد رکھو میرا مقصد یہ ہے کہ محمد مصطفی ﷺ کی عزت قائم کروں۔ اول تو یہ ہے ہی غلط کہ میں کسی نبی کی ہتک کرتا ہوں۔ ہم سب کی عزت کرتے ہیں۔ لیکن ایسا کرنے میں کسی کی ہتک ہوتی ہے تو بے شک ہو۔ میں نے جو دعاوی کئے وہ اپنی عظمت وشان کے اظہار کے لئے نہیں بلکہ رسول کریمﷺ کی شان کی بلندی کے اظہار کے لئے کئے ہیں۔ مجھے خدا کے بعد بس وہی پیارا ہے۔ لیکن اگر تم اسے کفر سمجھتے ہو تو مجھ جیسا کافر تم کو دنیا میں نہیں ملے گا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام (مرزا قادیانی) کی اتباع میں میں بھی کہتا ہوں کہ مخالف لاکھ چلائیں کہ فلاں بات سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ہتک ہوتی ہے۔ اگررسول کریمﷺ کی عزت قائم کرنے کے لئے حضرت عیسیٰ علیہ السلام یا کسی اور کی ہتک ہوتی ہو تو ہمیں ہرگز اس کی پرواہ نہیں ہوگی۔ بے شک آپ لوگ ہمیں سنگ سار کریں یا قتل کریں۔ آپ کی دھمکیاں اور ظلم ہمیں رسول اﷲﷺ کی عزت کے دوبارہ قائم کرنے سے نہیں روک سکتے۔‘‘ (تقریر میاں محمود احمد خلیفہ قادیان مندرجہ اخبار الفضل ۲۰؍مئی ۱۹۳۴ئ)
آج کل مخالفین سلسلۂ حقہ نے جو دروغ گوئی کے ساتھ ہمارے خلاف باتیں پھیلانی شروع کی ہیں۔ ان میں سے ایک بات یہ بھی ہے کہ حضرت مرزا قادیانی مرض ہیضہ سے فوت ہوئے تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات لاہور میں ہوئی تھی اور میں اور دیگر احباب اس وقت حضور کے پاس موجود تھے۔ حضرت جب کبھی دماغی محنت کیا کرتے تھے تو عموماً آپ کو دوران سر اور اسہال کا مرض ہوجاتا تھا۔ چنانچہ لاہور جب حضور اپنے لیکچر کا مضمون تیار کررہے تھے تو کثرت دماغی محنت کے سبب آپ کی طبیعت خراب ہوگئی اور دوران سر اور اسہال کا مرض ہوگیا اور مرض کے علاج کے لئے جو ڈاکٹر بلایاگیا تھا۔ وہ انگریز لاہور کا سول سرجن تھا اور چونکہ بعض مخالفین نے اس وقت بھی یہ شور مچایا تھا کہ آپ کو ہیضہ ہوگیا ہے۔ اس لئے صاحب سول سرجن نے یہ لکھ دیا کہ آپ کو ہیضہ نہیں ہوا، اور وفات کے بعد آپ کی نعش مبارک ریل میں بٹالہ تک پہنچائی گئی۔ اگر ہیضہ ہوتا تو ریل والے نعش مبارک کو بک نہ کرتے۔ پس مخالفین کا یہ کہنا بالکل جھوٹ ہے کہ حضور ہیضہ سے فوت ہوئے۔‘‘ (مفتی محمد صادق ربوہ ، ۲۲؍جنوری ۱۹۵۱ئ، الفضل ۱۱؍فروری ۱۹۵۱ء ص۵)