کئی نشستوں پر قبضہ جما چکے اور پاکستان کی سیاست میں ایک اہم عنصر کی حیثیت سے بڑے مخصوص اور غیرمحسوس انداز میں اپنا نقش جما رہے ہیں اور یقینا یہی وہ سیاسی اغراض ہیں جن کی خاطر قادیانی نت نئی تاویلیں گھڑتے اور مسلمانوں کا جزو بنے رہنے پر اصرار کرتے ہیں۔ مرزاناصر احمد خلیفہ ثالث نے صدر اور وزیراعظم کے حلف نامے میں عقیدۂ ختم نبوت کا اقرار ضروری قرار دئیے جانے پر یونہی تو یہ بیان نہیں دیا تھا کہ: ’’میں نے اس حلف نامہ کے الفاظ پر بڑا غور کیا ہے اور میں بالآخر اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ ایک احمدی کے راستہ میں اس حلف کے اٹھانے میں کوئی روک نہیں۔‘‘
(آزاد کشمیر اسمبلی کی ایک قرارداد پر تبصرہ ص۶، مبصر مرزاناصر احمد، خلیفہ ثالث، شائع کردہ نظارت اشاعت لٹریچر)
ظاہر ہے حضور رسالت مآبﷺ کو آخری نبی مان کر بھی قادیانیوں کے نزدیک حضور رسالت مآبﷺ کی اتباع میں نبوت کا سلسلہ جاری رہ سکتا ہے۔ مرزاغلام احمد قادیانی کی نبوت ظل وبروز کا جامہ اوڑھ کر برقرار رہتی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ہوس اقتدار کا دیرینہ خواب شرمندہ تعبیر ہو کر قادیانی معتقدات کے مطابق ربوہ دنیوی لحاظ سے بھی ایک اہم مقام بن جاتا ہے۷؎۔ پھر بھلا یہ حلف نامہ ایک قادیانی کی راہ میں روک کیسے ہو؟ سچ فرمایا آپ نے، مرزاقادیانی سچ فرمایا۔
۴…مذہب میں عدم مداخلت کی پالیسی اور ہم
حضرت علامہؒ کے نزدیک ہندوستان میں انگریزوں کی یہ پالیسی کہ وہ کسی کے مذہب میں مداخلت نہ کریں گے۔ ہندوستان میں بسنے والے تمام مذاہب کے لئے ضرررساں تھی۔ کیونکہ ان سب کی بقاء ان کے اندرونی استحکام کے ساتھ وابستہ تھی اور اگر اندرونی استحکام کو ٹھیس لگتی اور حکومت مذہبی معاملات میں عدم مداخلت کی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے اس کے تحفظ کی خاطر کوئی قدم نہیں اٹھاتی تو ظاہر ہے اس جماعت کی سالمیت کو ضرور ضرر پہنچے گا۔ چنانچہ وہ اس امر پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’اس پالیسی نے ہندوستان ایسے ملک پر بدقسمتی سے بہت برا اثر ڈالا ہے۔ جہاں تک اسلام کا تعلق ہے۔ یہ کہنا مبالغہ نہ ہوگا کہ مسلم جماعت کا استحکام اس سے کہیں کم ہے۔ جتنا حضرت مسیح علیہ السلام کے زمانہ میں یہودی جماعت کا رومن کے ماتحت تھا۔ (رومن کا بھی یہ دعویٰ تھا کہ وہ مذہب کے معاملہ میں غیرجانبدار ہے) ہندوستان میں کوئی مذہبی سٹے باز اپنی اغراض کی خاطر ایک نئی جماعت کھڑی کر سکتا ہے اور یہ لبرل حکومت اصل جماعت کی وحدت کی ذرہ بھر پروا نہیں کرتی۔ بشرطیکہ یہ مدعی اسے اپنی اطاعت اور وفاداری کا یقین دلادے (جیسا کہ مرزاغلام احمدقادیانی اور اس کے پیروؤں نے کیا) اور اس کے پیرو حکومت کے محصول اداکرتے رہیں۔‘‘ (حرف اقبال ص۱۲۵)