اسی طرح دوسرے مقام پر مسلمانوں اور عیسائیوں کے مقابلہ میں مرزاقادیانی نے اپنی جماعت کو ’’تیسری قوم‘‘ قرار دیتے ہوئے لکھا ہے کہ: ’’اب ایک تیسری قوم ہے جس نے ذوالقرنین سے التماس کی کہ یاجوج ماجوج کے درے بند کر دے تاکہ وہ ان کے حملوں سے محفوظ ہو جاویں۔ وہ ہماری قوم ہے جس نے اخلاص اور صدق دل سے مجھے قبول کیا۔‘‘
(زندہ نبی اور زندہ مذہب ص۵۵، تقریر مرزاقادیانی برجلسہ سالانہ قادیان ۱۹۰۱ئ)
ان دونوں عبارتوں میں مرزاقادیانی نے اپنی جماعت کو مسلمانوں اور عیسائیوں کے مقابلہ میں ایک الگ قوم قرار دے کر زیربحث مسئلہ کو بالکل صاف کر دیا ہے اور کوئی الجھن باقی نہیں رہنے دی۔
اصول وعقائد کے بعد نام بھی الگ
ایک مستقل اور الگ قوم ہونے کا لازمی نتیجہ یہی ہونا چاہئے کہ اس قوم کا نام بھی پہلی قوم سے علیحدہ ہو۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا اور مرزاقادیانی نے لکھا: ’’مناسب معلوم ہوا کہ اس فرقہ کا نام ’’فرقہ احمدیہ‘‘ رکھا جائے۔‘‘ (تریاق القلوب ص۳۹۹، خزائن ج۱۵ ص۵۲۷)
صرف جماعتی کاروبار اور نجی معاملات ہی میں مرزاقادیانی نے اپنی جماعت کو مسلمان کہنے کی بجائے ’’احمدی قوم‘‘ نہیں کہا۔ بلکہ سرکاری مردم شماری میں بھی اپنی جماعت کو حکم دیا کہ وہ اپنے نام کے ساتھ ’’احمدی‘‘ لکھوائیں۔ چنانچہ مرزاقادیانی فرماتے ہیں: ’’چونکہ اب مردم شماری کی تقریب پر سرکاری طور پر اس بات کا التزام کیاگیا ہے کہ ہر ایک فرقہ جو دوسرے فرقوں سے اپنے اصول کے لحاظ سے امتیاز رکھتا ہے۔ علیحدہ خانہ میں اس کی خانہ پری کی جائے اور جس نام کو اس فرقہ نے پسنداور تجویز کیا ہے۔ وہی نام سرکاری کاغذات میں اس کا لکھا جائے۔ اس لئے ایسے وقت میں قرین مصلحت سمجھا گیا ہے کہ اپنے فرقہ کی نسبت ان دونوں باتوں کو گورنمنٹ عالیہ کی خدمت میں یاد دلایا جائے اور نیز اپنی جماعت کو ہدایت کی جائے کہ وہ مندرجہ ذیل تعلیم کے موافق استفسار کے وقت لکھوائیں۔‘‘ (تریاق القلوب ص۳۸۹،خزائن ج۱۵ ص۵۱۷)
اس عبارت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مسلمانوں اور مرزائیوں میں اصولی۱۰؎ اختلاف ہے۔ اسی بناء پر مرزاقادیانی نے قرین مصلحت سمجھا کہ اپنی جماعت کا نام مسلمانوں سے الگ لکھوایا جائے۔