احادیث شریفہ
قرآن مجید نے آئندہ کے لئے ایک مستقل قانون اور قاعدہ کلیہ بتادیا۔ ’’یاایہا الذین اٰمنوا اطیعوا اﷲ واطیعوا الرسول واولی الامرمنکم (النسائ:۵۹)‘‘ {اے مؤمنین اﷲ کی اطاعت کرو اور اﷲ کے رسول کی اطاعت کرو اور اپنے میں سے اولیٰ الامر کی۔ رسول کے بعد اولیٰ الامر کی اطاعت ہے۔ کسی آئندہ نبی ورسول کی آمد کا تصور ختم کردیا گیا۔}
حدیث اوّل
’’کانت بنواسرائیل تسوسہم الا نبیاء کلما ہلک نبی خلفہ نبی وانہ لا نبی بعدی وسیکون خلفاء فیکثرون (بخاری ج۱ ص۴۹۱، مسلم ج۲ ص۱۲۶، مسند امام احمد ج۲ ص۲۹۷)‘‘ {رسول اﷲﷺ نے فرمایا بنی اسرائیل کا نظام انبیاء چلاتے تھے جب کوئی نبی وفات پاتے دوسرے نبی ان کے جانشین ہو جاتے اور اب شان یہ ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔ خلفاء ہوں گے اور وہ بڑی تعداد میں ہوں گے۔}
اس حدیث نے گزشتہ آیت کی مزید توضیح کر دی کہ اولیٰ الامر سے مراد خلفاء ہیں۔ امت محمدیہ علی صاحبہا صلوٰۃ اﷲ وسلامہ کو دین کے سلسلے میں کسی نئے حکم کی ضرورت نہیں ہوگی کہ نیا نبی آئے اور نئی وحی نازل ہو۔ بلکہ صرف نظام جماعت کے قیام اور شرعی احکام کے نفاذ کے ادارے کی ضرورت ہوگی اور یہ کام اولیٰ الامر وخلفاء انجام دیں گے۔ جن کی تعداد معیّن نہیں ہے۔ کثیر تعداد میں ہوں گے۔ ایک زمانہ میں بھی ان کی تعداد کثیر ہوسکتی ہے اور قیامت تک ملا کر بھی ان کی تعداد کثیر ہوسکتی ہے۔ حضرت احمد مجتبیٰ محمد مصطفیﷺ کے بعد جو لوگ نبوت کے دعویدار ہوں گے وہ قرآن وحدیث کی مخالفت کی وجہ سے کافر ومرتد ہوں گے۔ اگر یہ لوگ نبوت کے مدعی نہ ہوتے قرآن کے اعلان ’’اکملت لکم دینکم‘‘ {ہم نے تمہارے دین کو کامل کر دیا۔} ’’ولکن رسول اﷲ وخاتم النبیین‘‘ {محمدﷺ اﷲ کے رسول اور تمام نبیوں کے آخر ہیں۔} اور حدیث ’’لا نبی بعدی‘‘ {میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔} کا اقرار ولحاظ کرتے ہوئے نبوت کے دعوے کے بدلے اولیٰ الامر اور خلیفہ ہونے کو اپنے لئے عزت وفخر سمجھتے تو نہ خود کافر ومرتد ہوتے اور نہ دوسروں کو کافر ومرتد بناتے اور گمراہ کرتے۔
حدیث دوم
’’قال رسول اﷲﷺ وانہ سیکون فی امتی کذابون ثلاثون کلہم