بخاری حضرت عبداﷲ بن سلام سے روایت ہے کہ حضرت مسیح آنحضرت ﷺ کے حجرہ میں دفن ہوں گے اور ان کی قبر چوتھی ہوگی۔ فیکون قبرہ رابعا
ان احادیث صحیحہ سے ظاہر ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ابھی زندہ ہیں جو زمین پر اتریں گے چالیس سال گزار کر پھر وفات پائیں گے اور حجرہ نبویہ میں مدفون ہوں گے۔ یہ روایت بالکل صحیح ہے چنانچہ مرزا قادیانی نے بھی مانا ہے بلکہ نکاح محمدی بیگم کے لئے اور لڑکے بشیر کے حق میں اسے دلیل قرار دیا ہے۔
(ملاحظہ ہو حاشیہ ضمیمہ انجام آتھم ص۵۳، خزائن ج۱۱ ص۳۳۷، حاشیہ کشتی نوح ص۱۵، خزائن ج۱۹ ص۱۶)
امام ابو حنیفہؒ واحمد بن حنبلؒ
مذکورہ بالا ائمہ کرام کے متعلق بھی بلا ثبوت افترا کیا ہے کہ یہ سب اس مسئلہ میں خاموش تھے لہٰذا وفات مسیح کے قائل تھے۔
الجواب: ’’نزول عیسی علیہ السلام من السمائ… حق کائن‘‘
(شرح فقہ اکبر ص۱۳۶)
۲… امام احمد بن حنبل کی مسند میں تو بیسیوں احادیث حیات مسیح کی موجود ہیں۔ لہٰذا ان کو قائل وفات گرداننا انتہائی ڈھٹائی ہے۔
مرزا قادیانی کے اخلاق
’’آپ کا یہ خیال کہ گویا یہ عاجز براہین احمدیہ کی فروخت میں دس ہزار روپیہ لوگوں سے لے کر خرد برد کرگیا ہے۔ یہ اس شیطان نے آپ کو سبق دیا ہے جو ہر وقت آپ کے ساتھ رہتا ہے۔ آپ کو کیوں کر معلوم ہوگیا کہ میری نیت میں براہین کا طبع کرنا نہیں۔ اگر براہین طبع ہوکر شائع ہوگئی تو کیا اس دن شرم کا تقاضا نہیں ہوگا۔ آپ غرق ہوجائیں۔ ہر یک دیر بدظنی پر مبنی نہیں ہوسکتی اور میں نے تو اشتہار بھی دے دیا تھا کہ ہر یک مستعجل اپنا روپیہ واپس لے سکتا ہے اور بہت سا روپیہ واپس بھی کردیا۔ قرآن کریم جس کی خلق اﷲ کو بہت ضرورت تھی اور جو لوح محفوظ میں قدیم سے جمع تھا تیئس سال میں نازل ہوا اور آپ جیسے بد ظنیوں کے مارے ہوئے اعتراض کرتے رہے کہ لولا نزل علیہ القرآن جملۃ واحدۃ (آئینہ کمالات اسلام ص۳۰۶، خزائن ج۵ ص۳۰۶)
قولہ… ’’جب سے آپ نے مسیح موعود ہونے کا دعویٰ مشتہر کیا ہے اس دن سے آپ کی کوئی تحریر کوئی تقریر کوئی خط کوئی تصنیف جھوٹ سے خالی نہیں۔‘‘