مسلمان اب تک تو جبرائیل، میکائیل، اسرافیل اور عزرائیل علیہم السلام جیسے مقدس اور مقرب فرشتوں کے نام سنتے چلے آئے ہیں۔ لیکن مرزاقادیانی نے ان کے مقابلہ میں درشنی، انگریز، مٹھن لال، خیراتی اور ٹیچی ٹیچی فرشتے پیش کر کے اس مشہور ضرب المثل کی تصدیق کر دی کہ ’’جیسی روح ویسے فرشتے۔‘‘
ام المؤمنینؓ اور صحابہؓ ایک آخری گستاخی اور بے ادبی جو مرزائی امت نے اسلام اور بزرگان اسلام کی شان میں روارکھی یہ ہے کہ سیدنا صدیق اکبرؓ کے مقابلہ میں حکیم نوردین بھیروی آنجہانی کو اور سیدنا فاروق اعظمؓ کے مقابلہ میں مرزامحمود ایں جہانی کو اور دوسرے حضرات صحابہؓ کے مقابلہ میں عام مرزائیوں کو رکھ کر ان کو وہی درجہ دیا۔ جو حضرات شیخین ودیگر صحابہؓ کو حاصل تھا۔ حالانکہ ’’انگریز کے خود کاشتہ پود۹؎ے‘‘ کو حضرات شیخینؓ ودیگر صحابہؓ کے ساتھ کیا نسبت؟ چہ نسبت خاک رابعالم پاک! پھر اسی پر بس نہیں کی بلکہ سیدہ خدیجتہ الکبریٰؓ اور سیدہ عائشہ صدیقہؓ اور دوسری امہات المؤمنینؓ کے مقابلہ میں مرزاقادیانی آنجہانی کی بیوی کو بھی ’’حضرت ام المؤمنین‘‘ کہا اور لکھا جارہا ہے۔ غرض اسلام کا وہ کون سا مسئلہ ہے۔ جس کو اس جماعت نے مسخ نہیں کیا اور شریعت مطہرہ کی وہ کون سی اصطلاح ہے۔ جس کی عظمت اور وقعت کو اس دشمن اسلام جماعت نے کم کرنے کی سعی باطل نہیں کی؟ کیا ان واقعات کی موجودگی میں کوئی کہہ سکتا ہے کہ مرزائی جماعت مسلمانوں ہی کا ایک فرقہ ہے۔ جب کہ اس فرقہ کی ہر چیز چودہ سو سالہ اسلام سے بالکل جدا اور انوکھی ہے؟ اور خود مرزاغلام احمد قادیانی اور ان کے دونوں خلیفوں کو بھی اس کا اقرار واعتراف ہے۔
مرزائی بحیثیت ایک مستقل قوم کے
مسلمانوں سے مرزائیوں کا ہر بنیادی عقیدہ میں اختلاف کرنا ہی اس بات کی دلیل ہے کہ وہ ایک جدا قوم ہے خواہ وہ الگ قوم ہونے کا اقرار کریں یا نہ کریں۔ لیکن مرزاغلام احمدقادیانی کا تو یہ ا قرار بھی موجود ہے کہ ان کی جماعت ایک قوم ہے۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں: ’’دھوپ میں جلنے والے وہ لوگ ہیں جنہوں نے مسلمانوں میں سے مجھے قبول نہیں کیا اور کیچڑ کے چشمے اور تاریکی میں بیٹھنے والے عیسائی ہیں۔ جنہوں نے آفتاب کو نظر اٹھا کر بھی نہ دیکھا اور وہ قوم جن کے لئے دیوار بنائی گئی وہ میری جماعت ہے۔‘‘
(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم ص۱۴۹، خزائن ج۲۱ ص۳۱۴)