باب اوّل … فلسفہ ختم نبوت
قوم را سرمایہ قوت ازو
حفظ سر وحدت ملت ازو
(اسرار ورموز)
’’ختم نبوت کے معنی یہ ہیں کہ کوئی شخص بعد اسلام اگر یہ دعویٰ کرے کہ مجھے الہام وغیرہ ہوتا ہے اور میری جماعت میں داخل نہ ہونے والا کافر ہے تو وہ شخص کاذب ہے اور واجب القتل، مسیلمہ کذاب کو اسی بناء پر قتل کیا گیا۔ حالانکہ جیسا طبری لکھتا ہے وہ حضور رسالت مآب(ﷺ) کی نبوت کا مصدق تھا اور اس کی اذان میں حضور رسالت مآب(ﷺ) کی نبوت کی تصدیق تھی۔‘‘
۱…۱۰؎ ’’اس سے پہلے کہ ہم اپنی بحث میں آگے بڑھیں ضروری ہے کہ اسلام کے ایک نہایت ہی اہم اور بنیادی تصور… میرا مطلب ہے عقیدۂ ختم نبوت ’’ماکان محمد ابا احد من رجالکم ولکن رسول اﷲ وخاتم النبیین (الاحزاب:۴۰)‘‘ {(حضرت) محمد(ﷺ) تم مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں۔ لیکن اﷲ کے رسول اور خاتم النبیین ہیں۔} کی ثقافتی قدر وقیمت پورے طور پر ذہن نشین کر لی جائے۔
ایک اعتبار سے نبوت کی تعریف یوں بھی کی جاسکتی ہے کہ یہ شعور ولایت کی وہ شکل ہے۔ جس میں واردات اتحاد اپنے حدود سے تجاوز کر جاتیں اور ان قوتوں کی پھر سے رہنمائی یا ازسر نو تشکیل کے وسائل ڈھونڈتی ہیں جو حیات اجتماعیہ کی صورت گر ہیں۔ گویا انبیاء کی ذات میں زندگی کا متناہی مرکز (انسانی خودی۔ مترجم) اپنے لامتناہی اعماق میں ڈوب جاتا ہے۔ (اپنے مبداء وجود سے اتصال کی بدولت۔ مترجم) تو اس لئے کہ پھر ایک تازہ قوت اور زور سے ابھر سکے۔ وہ ماضی (یعنی انسان جس راستے پر چل رہا تھا۔ مترجم) کو مٹاتا اور پھر زندگی کی نئی نئی راہیں اس پر منکشف کر دیتا ہے (تاکہ ایک نئی ہیت اجتماعیہ کی تعمیر ہوسکے۔ مترجم) لیکن اپنی ہستی اور وجود کی اساس سے انسان کا یہ تعلق کچھ اسی کے لئے مخصوص نہیں۔ قرآن مجید نے لفظ وحی کا استعمال جن معنوں میں کیا ہے۔ ان سے تو یہی ثابت ہوتا ہے کہ وحی خاصۂ حیات ہے اور ایسا ہی عام جیسے زندگی۔ یہ دوسری بات ہے کہ جوں جوں اس کا گزر مختلف مراحل سے ہوتا یا یوں کہئے کہ جیسے جیسے وہ ارتقاء اور نشوونماء حاصل کرتی ہے۔ ویسے ہی اس کی ماہیت اور نوعیت بھی بدلتی رہتی