مندرجہ بالا بیان محتاج نہیں۔ ان الفاظ میں صاف طور پر حکم دے دیا گیا ہے کہ مسلمانوں کو مرزائی بننے پر مجبور کر دیا جائے۔ پس اندریں حالات مسلمان رہنماؤں کافرض ہے کہ مسلمانوں کو مرزائیوں کی دستبرد، جبر واکراہ سے بچانے کے لئے ایک مؤثر پروگرام بنائیں اور مرزائیوں کو ایک مذہبی جماعت تصور کرنے سے باز آئیں۔ بلکہ مفکر پاکستان علامہ اقبالؒ نے مرزائیوں کے متعلق جو انتباہ پیش کیا تھا اس کو زیرنظر رکھتے ہوئے ان کو جداگانہ اقلیت قرار دینے کی سعی کریں۔
ہمارے سفارت خانے اور مرزائی
(ماخوذ از ماہنامہ الصدیق ملتان، بابت ماہ جمادی الثانی ۱۹۷۱ئ) وزارت خارجہ کے اثر کو سرظفر اﷲ کی وجہ سے کس طرح مرزائی اپنی مرزائیت کی تبلیغ میں استعمال کرتے ہیں۔ اس کی ایک مثال ملاحظہ ہو۔ واشنگٹن کے مرزائی مبلغ کی سالانہ رپورٹ میں سے جو ۸؍جنوری ۱۹۵۲ء کے الفضل میں چھپی ہے۔ ایک اقتباس ہے۔۱… ’’حکومت اسرائیل کے امریکی سفارت خانے کے سیکرٹری نے واقفیت ہونے پر لنچ پر بلایا۔ اس موقعہ پر ان کو تبلیغ کی گئی اور مسئلہ فلسطین کے متعلق پاکستانی نقطۂ نگاہ کے متعلق بحث کی گئی۔‘‘
۲… ’’ڈاکٹر رالف بنچ جو مسئلہ فلسطین میں یو۔این۔او کی طرف سے ثالث تھے۔ ان کے ساتھ اس لنچ کی تقریب پیدا ہوئی اس موقعہ پر دو گھنٹے تک تعلیم اسلام اور حیات النبیﷺ پر گفتگو ہوئی اور لٹریچر پیش کیاگیا۔‘‘
۳… مسٹر جارج حکیم آف لبنان سے سلسلۂ احمدیہ کے متعلق مفید گفتگو ہوئی۔
۴… سفارتخانہ پاکستان کے بعض افسران کو مسجد میں مدعو کیاگیا اور جماعت احمدیہ کی اسلامی خدمات سے واقف کیا گیا۔ کیا ہمارے ارباب اقتدار اب بھی بیدار نہیں ہوں گے اور مرزائیت وارتداد کی تبلیغ کو اپنے سفارت خانوں سے دور رکھنے کی کوشش نہیں کریں گے۔
اس کے ساتھ ہی سپین کے مبلغ کی تقریر بھی ملاحظہ فرمائیے۔
(الفضل مورخہ ۲۲؍جنوری ۱۹۵۲ئ) ’’اراگون علاقاکے چوٹی کے اخبار (Heralads Aragon) نے خاکسار کے فوٹو کے ساتھ ایک مختصر سا آرٹیکل شائع کیا۔ دراصل جرنلسٹ نے