اشتہار نصرت دین وقطع تعلق از اقارب مخالف دین
علی ملت ابراہیم حنیفاً
ناظرین کو یاد ہوگا کہ اس عاجز نے ایک دینی خصومت کے پیش آجانے کی وجہ سے ایک نشان کے مطالبہ کے وقت اپنے ایک قریبی میرزا احمد بیگ ولد میرزاگاماں بیگ ہوشیار پوری کی دختر کلاں کی نسبت بحکم والہام الٰہی یہ اشتہار دیا تھا کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ مقدر اور قرار یافتہ ہے کہ وہ لڑکی اس عاجز کے نکاح میں آئے گی۔ خواہ پہلے ہی باکرہ ہونے کی حالت میں آجائے اور یا خدا تعالیٰ بیوہ کرکے اس کو میری طرف لے آوے۔ چنانچہ تفصیل ان کل امور مذکورہ بالا کی اس اشتہار میں درج ہے۔ اب باعث تحریر اشتہار ہذا یہ ہے کہ میرا بیٹا سلطان احمد نام جو نائب تحصیلدار لاہور میں ہے اور اس کی تائی صاحبہ جنہوں نے اس کو بیٹا بنایا ہوا ہے۔ وہ اس مخالفت پر آمادہ ہوگئے ہیں اور یہ سارا کام اپنے ہاتھ میں لے کر اس تجویز میں ہیں کہ عید کے دن یا اس کے بعد اس لڑکی کا کسی سے نکاح کیا جائے۔ اگر یہ اوروں کی طرف سے مخالفانہ کارروائی ہوتی تو ہمیں درمیان میں داخل ہونے کی کیا ضرورت اور کیا غرض تھی۔ امرربی تھا اور وہی اپنے فضل وکرم سے ظہور میں لاتا۔ مگر اس کام کے مدار المہام وہ لوگ ہوگئے۔ جن پر اس عاجز کی اطاعت فرض تھی اور ہرچند سلطان احمد کو سمجھایا اور بہت تاکیدی خط لکھے کہ تو اور تیری والدہ اس کام سے الگ ہوجائیں۔ ورنہ میں تم سے جدا ہوجائوں گا اور تمہارا کوئی حق نہیں رہے گا۔ مگر انہوں نے میرے خط کا جواب تک نہ دیا۔ بکلی مجھ سے بیزاری ظاہر کی کہ اگر ان کی طرف سے ایک تیز تلوار کا بھی مجھے زخم پہنچتا تو بخدا میں اس پر صبر کرتا۔ لیکن انہوں نے دینی مخالفت کرکے اور دینی مقابلہ سے آزار دے کر مجھے بہت ستایا اور اس حد تک میرے دل کو توڑ دیا کہ میں بیان نہیں کرسکتا اور عمداً چاہا کہ میں سخت ذلیل کیا جائوں۔ سلطان احمد ان دنوں بڑے گناہوں کا مرتکب ہوا۔ اول یہ کہ اس نے رسول اﷲﷺ کی مخالفت کرنی چاہی اوریہ چاہا کہ دین اسلام پر تمام مخالفوں کا حملہ ہو اور یہ اپنی طرف سے اس نے ایک بنیاد رکھی ہے۔ اس امید پر کہ یہ جھوٹے ہوجائیں گے اور دین کی ہتک ہوگی اور مخالفوںکی فتح۔ اس نے اپنی طرف سے مخالفانہ تلوار چلانے میں کچھ فرق نہیں کیا اور اس نادان نے نہ سمجھا کہ خداوند قدیر وغیور اس دین کا حامی ہے اور اس عاجز کا بھی حامی۔ وہ اپنے بندے کو کبھی ضائع نہ کرے گا۔ اگر سارا جہان مجھے برباد کرنا چاہے تو وہ اپنی رحمت کے ہاتھ سے مجھ کو تھام لے گا۔ کیونکہ میں اس کا ہوں اور وہ میرا۔ دوم سلطان احمد نے مجھے جو میں اس کا باپ