پھر سیاسی حیثیت میں بھی انہیں مسلمانوں سے علیحدہ ہو جانا چاہئے اور اگر وہ خود ایسا نہیں چاہتے تو پھر حکومت کو اپنی ذمہ داری اور معاملے کی نزاکت کا احساس کرنا چاہئے۔
اب میں حضرت علامہؒ کے اٹھائے ہوئے بعض نہایت اہم نکات کی جانب قارئین کی توجہ مبذول کرانا چاہوں گا۔ اس ضمن میں بعض انتہائی تلخ حقائق اور کچھ افسوسناک واقعات کا تذکرہ ناگزیر ہے۔ اگرچہ مجھے پتہ ہے کہ اس سے بعض جبینیں شکن آلود اور کچھ چہرے غضبناک ہوں گے۔ مگر کیا کروں ان حقائق کو نظرانداز کرنا میرے بس میں نہیں۔ یہ قوم کی امانت تھی جو مجھے ودیعت ہوئی اور جو میں قوم کو لوٹا رہا ہوں۔ چل میرے خامے بسم اﷲ!
۱…قادیانیت، یہودیت کی طرف رجوع ہے؟
حضرت علامہؒ نے آج سے اڑتیس برس پیشتر قادیانی تحریک کا تجزیہ کرتے ہوئے سب سے پہلے اس بات کی نشاندہی کی تھی کہ: ’’اس کا حاسد خدا کا تصور کہ جس کے پاس دشمنوں کے لئے لاتعداد زلزلے اور بیماریاں ہوں۔ اس کا نبی کے متعلق نجومی کا تخیل اور اس کا روح مسیح علیہ السلام کے تسلسل کا عقیدہ وغیرہ یہ تمام چیزیں اپنے اندر یہودیت کے اتنے عناصر رکھتی ہیں۔ گویا یہ تحریک ہی یہودیت کی طرف رجوع ہے۔‘‘ (حرف اقبال ص۱۲۳)
مگر تب (۱۹۳۶ء میں) یہ محض ایک نظری بحث تھی۔ جس پر مزید رائے زنی اب بھی ممکن ہے۔ مگر یہاں ایک بات نظرانداز نہیں کی جاسکتی اور وہ ہے فکر وخیال کے دائرے سے حرکت وعمل کے میدان تک قادیانیت کا یہودیت کے مماثل اور پھر ان دونوں کے مابین ایک خاص قسم کے روابط وتعلقات کا موجود ہونا۔
برطانوی وزیر خارجہ مسٹر بالفور کے ۱۹۱۷ء کے اعلان کے مطابق جب ۱۹۴۸ء میں بڑی ہوشیاری کے ساتھ فلسطین کی سرزمین پر قابل نفرین اسرائیل کا قیام عمل میں لایا گیا تو جن عربوں کی یہ سرزمین تھی وہ سب چن چن کر باہر نکال دئیے گئے۔ یہ شرف صرف قادیانیوں ہی کو عطاء ہوا کہ وہ بلاخوف وخطر اور بصد تسلی واطمینان وہاں رہیں۔ ان سے کوئی تعرض نہ کیا جائے گا۔ چنانچہ خود مرزابشیرالدین محمود (جنہیں قادیانی اپنے عقیدے کے مطابق، مصلح موعود کا خطاب دیتے ہیں) نہایت فخریہ انداز میں اس کا اعتراف کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’عربی ممالک میں بے شک ہمیں اس قسم کی اہمیت حاصل نہیں۔ جیسی ان (یورپی اور افریقی) ممالک میں ہے۔ پھر بھی ایک طرح کی اہمیت ہمیں حاصل ہوگئی ہے اور وہ یہ کہ فلسطین کے عین مرکز میں اگر مسلمان رہے ہیں تو وہ صرف احمدی ہیں۔‘‘ (روزنامہ الفضل لاہور ص۵، مورخہ ۳۰؍اگست ۱۹۵۰ئ)