اس کو صادق کی زندگی میں ہی دنیا سے اٹھالے یا کسی اور نہایت سخت آفت میں جو موت کے برابر ہو مبتلا کر۔ اے میرے پیارے مالک تو ایسا ہی کر۔ آمین ثم آمین۔ ’’ربنا افتح بیننا وبین قومنا بالحق وانت خیر الفاتحین آمین‘‘ بالآخر مولوی صاحب سے التماس ہے کہ میرے اس مضمون کو اپنے پرچہ میں چھاپ دیں اور جو چاہیں اس کے نیچے لکھ دیں۔ اب یہ فیصلہ خدا کے ہاتھ میں ہے۔ الراقم: عبداﷲ الصمد میر زا غلام احمد مسیح موعود عافاہ اﷲ واید!‘‘
(مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۵۷۶تا۵۷۹)
اس اشتہار کی اشاعت کے بعد ۲۵؍ اپریل ۱۹۰۷ء کے اخبار بدر قادیان میں مرزا قادیانی کی روزانہ ڈائری یوں چھپی: ’’ثناء اﷲ کے متعلق جو لکھا گیا ہے یہ در اصل ہماری طرف سے نہیں۔ بلکہ خدا ہی کی طرف سے اس کی بنیاد رکھی گئی ہے۔ ایک دفعہ ہماری توجہ اس کی طرف ہوئی اور رات کو توجہ اس کی طرف تھی اور رات کو الہام ہوا کہ: ’’اجیب دعوۃ الداع‘‘صوفیا کے نزدیک بڑی کرامت، استجابت دعا ہی ہے۔ باقی سب اس کی شاخیں ہیں۔ (مرزا) (ملفوظات ج۹ ص۲۶۸)
نتیجہ یہ ہوا کہ جناب مرزا قادیانی ۲۶؍ مئی ۱۹۰۸ء مطابق ۲۴؍ ربیع الثانی ۱۳۲۶ھ کو انتقال کرگئے۔ مولوی ثناء اﷲ صاحب۔ چالیس یا پچاس سال زندہ رہے اور برابر مرزائیت کی تردید کرتے رہے اور لدھیانہ میں مرزائیوں سے مباحثہ کیا اور تین سو روپیہ انعام حاصل کیا۔
اشتہار بغرض استعانت واستظہاراز انصار دین محمد مختار صلی اﷲ علیہ وعلیٰ الابرار
اخوان دیندار ومومنین غیرت شعار روحامیان دین اسلام ومتبعین سنت خیرالانام پر روشن ہوکہ اس خاکسار نے ایک کتاب متضمن اثبات حقانیتؐ قرآن وصداقت دین اسلام ایسی تالیف کی ہے جس کے مطالعے کے بعد طالب حق سے بجز قبولیت اسلام اور کچھ نہ بن پڑے اور اس کے جواب میں قلم اٹھانے کی کسی کو جرأت نہ ہوسکے۔ اس کتاب کے اس مضمون کا ایک اشتہار دیا جائے گا۔ کہ جو شخص اس کتاب کے دلائل کو توڑ دے ومع ذالک اس کے مقابلہ میں اسی قدر دلائل یا ان کے نصف یا ثلث یا ربع خمس سے اپنی کتاب کا (جس کو وہ الہامی سمجھتا ہے) حق ہونا یا اپنے دین کا بہتر ہونا ثابت کر دکھائے اور اس کے کلام یا جواب کو میری شرائط مذکورہ کے موافق تین منصف (جن کو مذہب فریقین سے تعلق نہ ہو) مان لیں تو میں اپنی جائیداد تعدادی دس ہزار روپیہ سے (جو میرے قبضہ وتصرف میں ہے) دستبردار ہوجائوں گا اور سب کچھ اس کے حوالہ کردوں گا۔ اس باب میں جس طرح کوئی چاہے اپنا اطمینان کرلے۔ مجھ سے تمسک لکھالے یا رجسٹری کرالے اور میری جائیداد منقولہ وغیر منقولہ کو آکر بچشم خود دیکھ لے۔