اور میرے نزدیک تو معاملہ اب صرف جداگانہ اقلیت یا ملی وحدت کے تحفظ ہی کا نہیں رہا۔ بلکہ اپنے مخصوص احوال وظروف کے ماتحت جن کی کسی قدر تشریح پیچھے ہوچکی ہے۔ خود ہمارے ملک کی بقاء وسلامتی سے جا کر مل گیا ہے۔ گویا عقیدۂ ختم نبوت کا آئینی تحفظ اب صرف سروحدت ملت ہی کا تحفظ نہیں۔ بلکہ وحدت ارض پاک کی بقاء وسلامتی کا راز بھی یہی ہے۔
۵…ختم نبوت اور روادار مسلمان
بعض سمجھدار لوگ جان بوجھ کر یہ ناسمجھی کی بات کرتے ہیں کہ ملت اسلامیہ کی وحدت کا تحفظ چاہنا یا قادیانیوں کے احتساب کا مطالبہ کرنا، فرقہ وارانہ منافرت پھیلانا ہے اور یہ کہ مسلمانوں کو فرقہ پرست نہیں ہونا چاہئے۔ حالانکہ یہ صحیح نہیں۔ ایک سچا مسلمان کبھی فرقہ پرست نہیں ہوتا۔ ’’واعتصموا بحبل اﷲ جمیعا ولا تفرقوا‘‘ ہر وقت اس کے پیش نظر رہتا ہے۔ مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ایک ایماندارانہ مسئلہ، خواہ مخواہ، فرقہ وارانہ، قرار دے دیا جائے۔ شاید یہ لوگ اپنے آپ کو روادار ثابت کرنے کے لئے اس قسم کی باتیں ضروری سمجھتے ہیں۔ اگر حقیقت یہی ہے تو پھر مجھے یہ کہنے کی اجازت دیجئے کہ وہ رواداری کا حقیقی مفہوم بالکل نہیں سمجھتے۔ ان کے لئے حضرت علامہؒ کی یہ عبارت سرمۂ بصیرت کی حیثیت رکھتی ہے۔
’’اس قسم کے معاملات میں جو لوگ رواداری کا نام لیتے ہیں وہ لفظ رواداری کے استعمال میں بے حد غیرمحتاط ہیں۔ رواداری کی روح ذہن انسانی کے مختلف نقاط نظر سے پیدا ہوتی ہے۔ گبن کہتا ہے کہ ایک رواداری فلسفی کی ہوتی ہے۔ جس کے نزدیک تمام مذاہب یکساں طور پر صحیح ہیں۔ ایک رواداری مؤرخ کی ہے۔ جس کے نزدیک تمام مذاہب یکساں طور پر غلط ہیں۔ ایک رواداری مدبر کی ہے۔ جس کے نزدیک تمام مذاہب یکساں طور پر مفید ہیں۔ ایک رواداری ایسے شخص کی ہے جو ہر قسم کے فکر وعمل کے طریقوں کو روارکھتا ہے۔ کیونکہ وہ ہر قسم کے فکر وعمل سے بے تعلق ہوتا ہے۔ ایک رواداری کمزور آدمی کی ہے جو محض کمزوری کی وجہ سے ہر قسم کی ذلت کو جو اس کی محبوب اشیاء یا اشخاص پر کی جاتی ہے۔ برداشت کر لیتا ہے یہ ایک بدیہی بات ہے کہ اس قسم کی رواداری اخلاقی قدر سے معرا ہوتی ہے۔ اس کے برعکس اس سے اس شخص کے روحانی افلاس کا اظہار ہوتا ہے جو ایسی رواداری کا مرتکب ہوتا ہے۔ حقیقی رواداری عقلی اور روحانی وسعت سے پیدا ہوتی ہے۔ یہ رواداری ایسے شخص کی ہوتی ہے جو روحانی حیثیت سے قوی ہوتا ہے اور اپنے مذہب کی سرحدوں کی حفاظت کرتے ہوئے دوسرے مذاہب کو روا رکھتا ہے اور ان کی قدر کر سکتا ہے۔ ایک سچا مسلمان ہی اس قسم کی رواداری کی صلاحیت رکھتا ہے۔‘‘ (حرف اقبال ص۱۴۳،۱۴۴)