وعقیدہ میں کوئی خرابی آئے گی اور نہ یہ کسی غیرکے ماتحت وغلام ہوں گے۔ اﷲ رب العزت کا تیسرا وعدہ اس آیت میں یہ ہے کہ خوف وہراس کی حالت کو امن وامان سکون وچین کے ماحول سے بدل دے گا۔ دوسرے لفظوں میں یہ ایک پیش گوئی ہے کہ محمد رسول اﷲﷺ کے بعد لوگ سخت ہولناک وخوفناک حالات میں مبتلا ہو جائیں گے۔ مگر اﷲ رب العزت خوف وہراس کو امن وبیخوفی سے بدل دے گا۔ آیت مبارکہ میں صدیق اکبرؓ کی خلافت کی تصدیق وحقانیت کا اعلان ہے۔ اجماع کے حجت ہونے کی سند ہے۔ صحابہ کرامؓ کے برسرحق ہونے کا واضح ثبوت ہے۔ انہی صحابہ کے عقیدہ دین کو اﷲ رب العزت کی قبولیت وپسند کا اعزاز حاصل ہے۔ وہ تمام فرقے جو صحابہ کرامؓ کی تکفیر، تفسیق یا تحقیر کرتے ہیں۔ وہ دراصل اﷲ رب العزت کے فرمان کے مخالف ہیں۔ صحابہ کرامؓ کا جو دین وعقیدہ تھا وہی اہل سنت وجماعت کا دین وعقیدہ ہے۔ وہ ابوبکر صدیقؓ کو بھی اپنا امام وامیر اور خلیفہ سمجھتے ہیں۔ علی ابن ابی طالبؓ کو بھی اپنا آقا مولیٰ اور امام مانتے ہیں۔ قرآن کی صداقت دیکھئے۔ ایک لاکھ چوبیس ہزار صحابہؓ تھے۔ مگر ان میں سے کوئی ایک فرد بھی کسی غیرمسلم حکومت کا مطیع، محکوم اور رعایا نہیں بنا اور ان کا جو دین وعقیدہ تھا وہی آج تک غالب چلا آرہا ہے۔ صحابہ کرامؓ کو یا ان کی راہ پر چلنے والوں ان کے دین وعقیدہ پر قائم رہنے والوں کو کبھی تقیہ کے ذریعے اپنا عقیدہ چھپانے کی ضرورت نہیں پڑی۔ اﷲ نے ان کے دین کو مضبوطی سے قائم کرنے اور تمکین واقتدار کا وعدہ کیا تھا۔ وہ ہمیشہ ظاہر رہا نہ کہ تقیہ اور تاویل کے پردوں میں چھپایا گیا۔ مرزائیوں کی طرح نئے مدعی نبوت کی پیروی کے باوجود اسلام کا نقاب اوڑھ کر منافقانہ زندگی گزارنے کی کبھی ضرورت نہ پڑی۔
خوف کو امن سے بدلنے کا جو وعدۂ الٰہی تھا اس کا ایفاء تو سورج سے زیادہ روشن تاریخی حقیقت ہے۔ صحابہؓ کا دین وعقیدہ کیا تھا۔ اس کی حفاظت کے لئے ان کا متفقہ اقدام وعمل کیا تھا۔ وہ کن حالات میں مبتلا ہوئے اور اﷲ کی تائید نے ان کے ساتھ کیا کیا تاریخ والوں سے پوشیدہ نہیں ہے۔ حضور سیدنا محمد رسول اﷲﷺ کے بعد مسیلمہ، اسود، سجاح، طلیحہ نے اپنے اپنے قبیلوں میں نبوت کا دعویٰ کیا اور ہزاروں ہزار افراد ان کے پیچھے ہولئے۔ تنہا مسیلمہ کے پاس چالیس ہزار مسلح فوج تھی۔ ان جھوٹے نبیوں کے ماننے والوں کے علاوہ منکرین زکوٰۃ کی بہت بڑی جماعت تھی۔ مسلمانوں کے لئے خوف ہراس کااندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ مدینہ طیبہ سے باہر اسلام کا اقتدار گویا ختم ہوچکا تھا۔ ہر لمحہ یہ خوف بڑھتا جارہا تھا کہ مرتدین مدینہ پاک پر حملہ کیا ہی چاہتے