بندہ سے دوران گفتگو میں بعض سیاسی حالات پر تبادلہ خیالات کیا تھا۔ جس چیز کا ذکر کیا۔ اس میں مصر اور ایران کے تعلق میں انگریزوں کے سلوک کا ذکر تھا۔ بندہ نے انہیں بتایا کہ دنیا کے موجودہ حقیقی رہنما امام جماعت احمدیہ نے ہندو پاکستان کی آزادی سے قبل انگلستان کو یہ مشورہ دیا تھا کہ انگلستان کے لئے یہ بہتر ہوگا کہ انگلینڈ ان ملکوں کو جو غلام ہیں آزاد کر دے تاکہ ان ملکوں کے کئی لاکھ سپاہی اپنے آپ کو آزاد سمجھتے ہوئے ازخود کمیونزم کا مقابلہ کر سکیں۔‘‘
ہمارے ارباب اقتدار کو دیکھنا چاہئے کہ مرزائی مبلغ ساری دنیا کو یہ یقین دلاتے پھرتے ہیں کہ دنیا کا حقیقی رہنما مرزامحمود ہے اور حقیقت میں دیکھا جائے تو ہماری وزارت خارجہ بھی ہمارے ارباب اقتدار سے زیادہ مرزامحمود کے فرامین کے تابع ہے۔ آخر یہ دوعملی کب تک برداشت کی جائے گی؟
مرزائی حکومت کے کوائف
(ماخوذ از ماہنامہ الصدیق ملتان بابت ماہ رجب ۱۹۷۱ئ) اب ذیل میں چند کوائف مرزائی حکومت کے ذکر کئے جاتے ہیں۔ جس کی بنیاد پاکستان میں رکھی جا چکی ہے اور بشیر الدین محمود صاحب اپنی اسی حکومت کے بل بوتے پر فرماتے ہیں: ’’میں بھی کہتا ہوں کہ اس دن جب تمہارا اکثریت میں ہونے کا غرور ٹوٹ جائے گا۔ تو خواہ اس وقت میں ہوں یا میرا قائم مقام تم سے بھی بہرحال یوسف والا سلوک کیا جائے گا۔‘‘ (الفضل مورخہ ۳؍جنوری ۱۹۵۲ئ)
مرزائیوں کا دارالخلافہ
ضلع جھنگ میں ۱۰۳۴؍ایکڑ زمین پنجاب کے انگریز گورنر (مسٹر موڈی) نے کوڑیوں کے بھاؤ مرزائیوں کو دی تھی۔ تاکہ وہ ایک الگ دارالخلافہ بنالیں۔ جس کے کوائف الفضل وغیرہ سے نقل کر کے درج کئے جاتے ہیں۔
۱… ’’اس ۱۰۳۴؍ایکڑ زمین میں ایک ایسا شہر آباد کیاگیا ہے۔ جو ضلع جھنگ میں دریائے چناب کے پار لائل پور سرگودھا کے عین وسط میں واقع ہے۔‘‘
(بحوالہ مرزائی اخبار الرحمت ۲۱؍نومبر ۱۹۴۹ئ)
۲… ’’اس شہر کا نام ربوہ رکھاگیا ہے۔ اس کے محلوں کے نام حسب ذیل ہیں۔ دارالیمن، باب الابواب، دار النصر، دار البرکات، دار الرحمت، دار الصدر، دار الفضل۔‘‘
(الفضل قادیان مورخہ ۲۸؍ستمبر ۱۹۵۱ئ)