۳… اور یہ علیحدگی مرزائیوں کی رائے نہیں۔ بلکہ بقول ان کے خداتعالیٰ کے حکم کے ماتحت ہے۔۴… اور یہ علیحدگی اس بنیاد پر ہے کہ مصلح (یعنی پیغمبر) کے آنے کے بعد اس کے ماننے والے، نہ ماننے والوں سے کٹ جاتے ہیں اور دونوں الگ الگ قومیں بن جاتی ہیں۔
ان حالات میں حکومت پاکستان کو مسلمانوں کا یہ مطالبہ ماننے میں قطعاً تأمل نہ کرنا چاہئے کہ مرزائیوں کو مسلمانوں سے جدا گانہ اقلیت قرار دے دیا جائے۔ مرزائی صاحبان کو بھی چاہئے کہ وہ اپنے لٹریچر کی روشنی میں مسلمانوں کے اس مطالبہ کی حمایت کریں۔
مرزامحمود کا مطالبہ ہمیں اقلیت قرار دیا جائے
آخر میں مرزامحمود کا ایک بیان نقل کر کے اس رسالہ کو ختم کرتا ہوں۔ مرزامحمود کہتے ہیں: ’’میں نے اپنے ایک نمائندہ کی معرفت ایک بڑے ذمہ دار انگریز افسر کو کہلا بھیجا کہ پارسیوں اور عیسائیوں کی طرح ہمارے حقوق بھی تسلیم کئے جائیں۔ جس پر اس افسر نے کہا کہ وہ تو اقلیت ہیں اور تم ایک مذہبی فرقہ، اس پر میں نے کہا کہ پارسی اور عیسائی بھی تو مذہبی فرقہ ہیں۔ جس طرح ان کے حقوق علیحدہ تسلیم کئے گئے ہیں۔ اسی طرح ہمارے بھی کئے جائیں تم ایک پارسی پیش کرو اس کے مقابلہ میں دو دو احمدی (مرزائی) پیش کرتا جاؤں گا۔‘‘
(الفضل مورخہ ۱۳؍نومبر ۱۹۴۶ء منقول ازروزنامہ احسان لاہور، مورخہ ۱۲؍جولائی ۱۹۵۲ئ)
سر ظفر اللہ کی وزارت خارجہ سے علیحدگی کا مطالبہ اور اس کے دلائل
مسلمانان پاکستان اس وقت دو مطالبے حکومت سے کر رہے ہیں۔ ایک مرزائیوں کو جداگانہ اقلیت قرار دیا جائے۔ دوسرے ظفر اللہ وزیر خارجہ کو ان کے عہدہ سے برطرف کیا جائے۔ پہلے مطالبہ کے دلائل آپ اوپر ملاحظہ فرما چکے ہیں: ’’دوسرے مطالبہ کے دلائل اس اداریہ میں مذکور ہیں۔ جسے ملک کے مشہور اہل قلم مولانا ماہر القادری نے اپنے ماہنامہ فاران کراچی بابت ماہ جولائی ۱۹۵۲ء میں سپرد قلم فرمایا ہے۔‘‘
اس کو ذیل میں نقل کیا جاتا ہے: ’’مسلمانوں کے تمام فرقے اس پر متفق ہیں کہ سیدنا محمد رسول اللہﷺ کی ذات گرامی پر نبوت ختم ہو گئی اور اب قیامت تک کوئی نبی پیدا نہ ہو گا۔ قرآن پاک احادیث رسول اور خود امت کا ساڑھے تیرہ سو سالہ اجماع اس پر شاہد ہے۔ امت مسلمہ پر کیسے کیسے نازک وقت آئے ہیں۔ عقائد و اعمال کے خود مسلمانوں میں کیسے کیسے شدید فتنے اٹھے ہیں۔ دین اسلام کو کس کس مظلومیت کے دور سے گزرنا پڑا ہے۔ ان حالات میں دین کی