ہے ہمیشہ قادیان ہی میں رہنے دیا۔ اس خصوصی رعایت کا سبب؟ حجاز میں قادیانیوں کے لئے جگہ نہیں۔ مصر ان کا وجود گوارا نہیں کرتا۔ شام میں ان کے خلاف ایکشن ہوا۔ ترکی انہیں ناپسند کرتا ہے۔ افغانستان انہیں سنگسار کر چکا۔ خود پاکستان کا مسلمان ان کے خلاف ہے اور سخت خلاف، ۱۹۵۳ء میں قادیانیوں کے خلاف تمام ملک میں زبردست ایجی ٹیشن ہوا اور سینکڑوں مسلمانوں نے مطالبات منوانے کے لئے اپنی جانیں قربان کیں۔ حال ہی میں مکہ معظمہ میں رابطہ اسلامی کے زیراہتمام دنیا بھر کی ایک سو سے زائد اسلامی تنظیموں نے قادیانیوں کے خلاف اپنے شدید ردعمل اور برہمی کا اظہار کیا ہے۔ آخر اس تمام ترنفرت کا سبب؟ ظاہر ہے یہ قادیانیوں کا سازشی کردار ہی ہے۔ جو انہیں دنیائے اسلام میں اس نفرت وحقارت کا نشانہ بنواتا ہے۔ اگر وہ مغربی استعمار کی ایجنٹی اور اسلام وعالم اسلام کی شکست وریخت سے باز آجائیں تو پھر ان کے خلاف احتجاج کیوں ہو؟ اور یہی قادیانیت کا تاریخی وسیاسی پس منظر ہے۔
شاید میں اس قدر طویل پس منظر جسے مرزاغلام احمد قادیانی کی تحریروں نے اور زیادہ بوجھل کر دیا ہے نہ لکھتا مگر گزارش احوال واقعی اور The Arrival of British Empier in India. کی روایت کی تنقیح کی خاطر یہ ناگزیر سا معلوم ہوا۔ بہرحال میں نے قارئین کے سامنے دستاویزی شواہد کے ساتھ حقائق وواقعات کا آئینہ رکھ دیا ہے۔ قادیانیت کے حقیقی خدوخال کا تعین وہ خود کر سکتے ہیں۔
قادیانیت اور اقبال
قادیانی جماعت نے برصغیر پاک وہند کے اندر اور باہر جس برطانوی ضرورت کو پورا کیا اور دنیائے اسلام کو جس قدر نقصان پہنچایا اس کا حال پیچھے گذر چکا ہے۔ ظاہر ہے مسلمان اپنی حیات اجتماعی پر کلہاڑا کیسے چلنے دیتے؟ ختم نبوت ایسے اصول اتحاد کے ساتھ گلی ڈنڈا کھیلنے کی اجازت دینے کا مطلب یہ تھا کہ مسلمانوں نے اپنی موت کے پروانے پر دستخط کر دئیے۔ یہ ناممکن تھا۔ چنانچہ انگریز کی ساختہ وپرداختہ اس جماعت کا تعاقب ہوا اور خوب ہوا۔
قادیانیت کے خط وخال واضح کرنے اور اس کے مضرات کی نشاندہی میں اگرچہ علامہ انور شاہ کشمیریؒ، مولانا شبیر احمد عثمانیؒ، مولانا ابوالکلام آزادؒ، سید عطاء اﷲ شاہ بخاریؒ، مولانا ظفر علی خاںؒ، چوہدری افضل حقؒ، سید ابوالحسن علی ندویؒ، الیاس برنیؒ اور سرظفر علی وغیرہ مشاہیر واکابر نے بڑی قابل قدر خدمات سرانجام دیں۔ مگر قادیانیت کو نقد ونظر کے ترازو میں جس طرح شاعر