۱۸۸۱ء میں اور تیسرا ،۱۸۸۲ ء میں اور چوتھا ۱۸۸۳ء میں شائع ہوا۔
(سیرت مسیح موعود از مرزا بشیر الدین ص۲۶)
حیرت اور افسوس کی چیز ہے کہ مرزا قادیانی کس وعدہ پر مسلمانو ں سے چندہ وصول کرتے ہیں اور کتاب حسب وعدہ شائع نہیں کرتے کیا یہی دیانت وایمان داری ہے۔ غور کیجئے پانچواں حصہ ۱۹۰۵ء میں چھپا اور پھر اعلان کردیا کہ پچاس اور پانچ میں صرف ایک ہندسہ کا فرق ہے۔ یہ مسلمانوں کے ساتھ مرزا قادیانی کیا برتاؤ کررہے ہیں۔ کیا مرزائی صاحبان اس کے لئے تیار ہیں کہ کسی مسلمان کو پچاس ہزار روپیہ قرض دیں اور اس کی وصول یابی مرزا قادیانی کی سنت کے مطابق ہو اور پانچ ہزار دے کر وہ یہ کہہ دے کہ صرف ایک ہندسہ کا فرق ہے۔ مطابق سنت مرزا قادیانی کیا یہ حساب برابر ہوجائے گا۔ جو شخص دیانت وامانت میں پورا نہ اترے وہ کسی بھی اونچی سوسائٹی میں بیٹھنے کا مستحق نہیں ہے۔
’’ان صاحبوں کے جو قیمت ادا کرچکے ہیں یا ادا کرنے کا وعدہ ہو چکا ہے قیمت اس کتاب کی بجائے پانچ روپیہ کے دس روپیہ تصور فرماویں۔ مگر واضح رہے کہ اگر بعد معلوم کرنے قدرومنزلت کتاب کے کوئی امیر عالی ہمت محض فی سبیل اﷲ اس قدر اعانت فرمادیں گے کہ جو کسرکمی قیمت کی ہے اس سے پوری ہوجائے گی۔ تو پھر بہ تجدید اعلان وہی پہلی قیمت کہ جس میں عام مسلمانوں کا فائدہ ہے قرار پاجائے گی اور ثواب اس کا اس محسن کو ملتا رہے گا اور یہ وہ خیال ہے کہ جس سے ابھی میں ناامید نہیں اور اغلب ہے کہ بعد شائع ہونے کتاب اور معلوم ہونے فوائد اس کے‘ کے ایسا ہی ہو اور انشاء اﷲ یہ کتاب جنوری ۱۸۸۰ء میں زیر طبع ہوکر اس کی اجراء اسی مہینہ یا فروری میں شائع اور تقسیم ہونا شروع ہوجائے گی۔ مکرریہ کہ میں اس اعلان میں مندرجہ حاشیہ صاحبان کا بدل مشکور ہوں کہ جنہوں نے سب سے پہلے اس کتاب کی اعانت کے لئے بنیاد ڈالی اور خریداری کتب کا وعدہ فرمایا۔(مورخہ ۳؍ دسمبر ۱۹۷۹ئ)
مرزا غلام احمد قادیان ضلع گورداسپور، پنجاب (مجموعہ اشتہارات ج۱ ص۱۴)
(۱) ایفائے عہد اور حصول زر
قرآن کریم اور احادیث شریف ایفائے عہد کی تاکیدوں سے پر ہیں اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں۔ ’’اوفو بالعہد (بنی اسرائیل:۳۴) (وعدے پورے کیا کرو) اوفو بالعقود (مائدہ:۱) (اقرار پورے کیا کرو) ان العہد کان مسئولا (بنی اسرائیل:۳۴) (عہدواقرار کے (ایفا کی) بابت قیامت کے دن سوال ہوگا) وغیرہ‘‘