خان کی گول میز کانفرنس کے دوران یہودیوں نے اسے استعمال کیا۔
(ابرآلود سورج، از مولوی فرید احمد)
حیرت ہے کہ آج تک پاکستان کی کسی حکومت نے بھی ان تعلقات کا نوٹس نہیں لیا۔ بلکہ ستم تو یہ ہے کہ پاکستان کا لاکھوں روپے کا زرمبادلہ بیرونی ملکوں میں تبلیغ اسلام کے نام پر قادیانیوں کے سپرد کر دیا جاتا رہا۔ کیا تصور پاکستان کے خالق کی روح اس پر ماتم نہ کرتی ہوگی۔ جنہوں نے فرمایا تھا کہ: ’’ہمیں دنیائے اسلام سے متعلق قادیانیوں کے رویہ کو فراموش نہیں کرنا چاہئے۔‘‘ (حرف اقبال ص۱۳۷)
بہرحال میرا مقصد حضرت علامہؒ کے ایک اہم نکتے اور اس کی تشریح میں بعض ناقابل تردید حقائق کا بیان تھا جو میں نے کر دیا۔ اس سے آگے ذمہ داری میری نہیں، کسی اور کی ہے۔
۲…قادیانی اور کمیونسٹ
یہ بڑی عجیب بات ہے کہ کمیونسٹ تحریک سے ہمدردی رکھنے اور مذہب کو افیون قرار دینے والے عناصر قادیانی تحریک کے بارے میں زبان نہیں کھولتے۔ بلکہ ان کی اکثر کوشش یہی ہوتی ہے کہ قادیانیوں کے خلاف کوئی آواز نہ اٹھے۔ وہ ہر مقام پر قادیانیوں کی مخالفت سے گریز کرتے اور اس ایماندارانہ، مسئلہ کو فرقہ وارانہ جھگڑا کہہ کر ٹال جاتے ہیں۔
پنڈت جواہرلال نہرو اپنے آپ کو سوشلسٹ کہتے اور مذہباً دہریہ تھے۔ علامہ اقبالؒ نے قادیانیت کا پوسٹ مارٹم کرتے ہوئے اس کے خلاف اپنے بیانات چھپوائے تو پنڈت جواہر لال اپنی تمام تر دہریت مآبی کے باوجود قادیانیت کی حمایت پر اتر آئے اور ماڈرن ریویو، کلکتہ میں مسلمان اور احمدزم کے عنوان سے یکے بعد دیگرے تین مضمون لکھ مارے۔ ایسا کیوں ہے؟ یا ایسا کیوں ہوا؟ میرے خیال میں حضرت علامہؒ نے اس ضمن میں جو کچھ لکھا وہی قادیانیوں اور کمیونسٹوں کے درمیان نقطۂ اتصال ہے۔
آپ فرماتے ہیں: ’’(ہندوستان میں) مذہبی مدعیوں کی حوصلہ افزائی کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ لوگ مذہب سے بالعموم بیزار ہونے لگتے اور بالآخر مذہب کے اہم عنصر کو اپنی زندگی سے علیحدہ کر دیتے ہیں۔‘‘ (حرف اقبال ص۱۲۷)
ظاہر ہے اس طرح ایک طرف مذہب پر زد پڑتی اور دوسری طرف کمیونزم کے فلسفہ کے لئے راستہ ہموار ہوتا ہے اور یہی مقصود ہے۔ جس کے حصول کی خاطر ایک کمیونسٹ، ایک نام نہاد نبی، کی نبوت کو گوارا کرتا یا اس کی حوصلہ افزائی کرتا ہے اور ویسے بھی ایک فلسفہ رب محمد کا باغی،