مؤمن اور محمد رسول اﷲﷺ کے پیرو انکار واقرار کی آزمائش میں پڑ کر خیر امت کہلانے کا تاج سر پر رکھے ہوئے کافر قرار پائیں اور جہنم میں داخل ہوں۔
ختم نبوت
حضرت محمد مصطفیٰﷺ پر سلسلۂ نبوت ختم ہوگیا۔ آپﷺ کے بعد کوئی نبی پیدا نہیں ہوگا۔ حضور علیہ السلام سے لے کر آج تک تمام مسلمانوں کا یہ اجماعی اور متفقہ عقیدہ کسی رائے واجتہاد کی بناء پر نہیں ہے۔ بلکہ روایت وعقل دونوں بنیادوں پر مسلمانوں کا یہ عقیدہ حق اور درست ہے۔ اس کے خلاف ہر عقیدہ اور خیال کفر وگمراہی ہے۔ حضرت محمد مصطفیﷺ کے بعد یوں تو مختلف لوگ نبوت کا دعویٰ لے کر کھڑے ہوئے۔ مگر ان کے دعوے سے اسلامی عقیدہ، قرآنی ہدایت، حدیثوں کی تعلیم اور امت مسلمہ کا اجماع نہیں ٹوٹ سکتا۔ وحی نبوت کا دعویٰ کوئی انوکھی بات نہیں ہے۔ جب کہ دنیا میں خدائی کے دعویدار ربوبیت اور الوہیت کے مدعی بھی گذرے ہیں اور آج بھی پیدا ہورہے ہیں اور بہتیرے لوگوں نے ان مدعیوں کو خدا مانا اور ان کی عبادت بھی کی۔ یا آج کروڑوں انسان ہیں جو سرے سے خدا کو مانتے ہی نہیں۔ حالانکہ ان کے سر پر اتنا بڑا آسمان اور آسمانی موجودات ان کے پاؤں کے نیچے اتنی وسیع عریض زمین، سمندر اور زمینی مخلوقات پھیلے ہوئے ہیں۔ جن میں سے کوئی چیز کسی انسان کی بنائی ہوئی نہیں ہے۔ انسان جو تمام مخلوقات میں زیادہ علم وعقل والا ہے۔ ابھی تک کسی ایک ذرے کی پوری حقیقت بھی معلوم نہ کر سکا۔ خالقیت اور آفرید گاری بڑی چیز ہے۔
قرآن اور ختم نبوت
سب سے پہلے ہم قرآن کی روشنی میں ختم نبوت کے مسئلے کو دیکھیں۔ کیونکہ ایک مسلمان کی حیثیت سے ہمارا یقین وایمان ہے کہ قرآن کے برابر کوئی اور بیان سچا نہیں ہوسکتا۔ بالخصوص نبوت کا مسئلہ، نبی، اﷲ کی طرف سے مقرر ہوتے ہیں۔ اپنی سعی وکوشش ریاضت وعبادت سے کوئی نبی نہیں ہوتا اور نہ دنیا والوں کی رائے اور مشورے سے یا ان کی تائید وتعریف سے کوئی نبی بن جاتا ہے۔ نبی کا تقرر وانتخاب ارسال وبعثت تمام تر اﷲ رب العزت کے اپنے فیصلے پر موقوف ہے۔
قرآن مجید اسی اﷲ کا کلام ہے جو نبی مقرر کرتا ہے۔ اگر قرآن مجید کا یہ اعلان ہو کہ حضرت محمد مصطفیٰﷺ کے بعد نبی کی ضرورت نہیں اور ان پر نبوت ختم ہوگئی تو پھر قرآن کی تصدیق کرنے والے کے لئے اس کی گنجائش نہیں رہتی کہ حضور علیہ السلام کے بعد اپنے حق میں نبوت کا