تو یہ قوم بھی الگ ہے۔ ان کو اقلیت قرار دیا جائے اور تمام مسلمانوں پر مسلط نہ کیا جائے۔ مسلمان جیسے دوسری اقلیتوں سے رواداری کا سلوک کرتے ہیں اور ان کے ساتھ بھی رواداری کریں گے۔
بغداد پر انگلستانی فرنگیوں کا تسلط
قادیان میں چراغاں اور جشن مسرت
ماخوذ از الصدیق ملتان، بابت ماہ ذیقعدہ ۱۳۷۱ھ
مرزائیوں کو اسلام اور اہل اسلام سے کہاں تک ہمدری اور تعلق وربط ہے۔ مندرجہ ذیل واقعہ اس پر پوری طرح روشنی ڈالتا ہے۔
اسلام کا مرکز اور خلفائے بنوعباس کا دارالخلافہ بغداد ۱۴۔۱۹۱۸ء کی عالمگیر جنگ سے پہلے ترکی قلمرو میں داخل تھا۔ اس آشوب عالم میں اس پر اہل صلیب کا قبضہ ہوا۔ اس پر قادیان میں چراغاں ہوا اور ہر طرح سے خوشیاں منائی گئیں۔ الفضل نے جشن مسرت اور چراغاں کی تفصیل بیان کرتے ہوئے لکھا: ’’میں اپنے احمدی بھائیوں کو جوہربات میں غور وفکر کرنے کے عادی ہیں ایک مژدہ سناتا ہوں کہ بصرہ وبغداد کی طرف جو اﷲتعالیٰ نے ہماری محسن گورنمنٹ (انگریز حکومت) کے لئے فتوحات کا دروازہ کھول دیا ہے۔ اس سے ہم احمدیوں کو معمولی خوشی حاصل نہیں ہوئی۔ بلکہ سینکڑوں اور ہزاروں برسوں کی خوشخبریاں جو الہامی کتابوں میں چھپی ہوئی تھیں آج ۱۳۳۵ھ میں ظاہر ہوکر ہمارے سامنے آگئیں۔ اس بات سے غیراحمدی بھائی ناراض ہوں گے۔ لیکن اگر غور کریں تو اس میں ناراضگی کی کوئی بات نہیں۔‘‘ (الفضل قادیان مورخہ ۱۰؍اپریل ۱۹۱۷ئ)
روئے زمین پر مرزائی تسلط کے خواب
مرزائی سلاطین مسلمانوں سے انتقام لیں گے
ماخوذ از الصدیق ملتان بابت ماہ ذیقعدہ ۱۳۷۱ھ
یہ کوئی الزام تراشی اور افتراء پردازی نہیں بلکہ حقیقت ہے کہ مرزائے قادیان کی امت مدت سے نہ صرف پاکستان اور دوسرے اسلامی ممالک پر بلکہ دنیا کی ہر اقلیم پر مرزائی پرچم لہرائے جانے کے خواب دیکھ رہی ہے اور انہیں کامل یقین ہے کہ ایک ایسا وقت آنے والا ہے جبکہ مرزائی سلاطین اور رنگ ہائے سلطنت پر بیٹھ کر سیاسیات عالم کے مالک ہوں گے۔ الفضل رقم طراز ہے