حدیث یازدہم
(کنزالعمال ج۵ ص۲۹۰) میں ہے۔ حضور علیہ السلام نے فرمایا: ’’یاایہا الناس ان ربکم واحد واباکم واحد ودینکم واحد ونبیکم واحد لا نبی بعدی‘‘
اے انسانو! بیشک تمہارا رب ایک ہے۔ تمہارے باپ ایک ہیں اور تمہارا دین ایک ہے اور تمہارے نبی ایک ہیں۔ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔ حدیث کی کتاب جمع الجوامع کی روایت اس کے ساتھ ملا لیجئے تو ختم نبوت کا مسئلہ اور بھی واضح ہو جاتا ہے۔ حضور علیہ السلام نے فرمایا۔ ’’انما انا لکم مثل الوالد‘‘ میں تمہارے لئے باپ کی طرح ہوں۔ دوسرے لفظوں میں جس طرح جسمانی باپ دو نہیں ہوتے ہیں۔ میں تمہارا روحانی وایمانی باپ ہوں۔ اب کوئی دوسرا روحانی وایمانی باپ نہیں ہوسکتا۔ اس حدیث میں ’’انما‘‘ کا لفظ حصر وتخصیص کے لئے ہے۔ یعنی روحانی وایمانی باپ ہونے کا مرتبہ اس امت کے لئے صرف محمد رسول اﷲﷺ کو حاصل ہے۔ کوئی دوسرا روحانی و ایمانی باپ نہیں ہوسکتا۔ اسی لئے قرآن مجید میں وضاحت سے اعلان کر دیا۔ ’’وازواجہ امہاتہم (احزاب:۶)‘‘ {محمدﷺ کی بیویاں مؤمنین کی مائیں ہیں اور سب کی سب ام المؤمنین ہیں۔
مرزاقادیانی نے اپنے آپ کو نبی کہا۔ اپنے پیروؤں کا روحانی وایمانی باپ بنا اور اپنی بیوی کو ام المؤمنین کہلایا۔ مرزاقادیانی اور اس کے ماننے والے قادیانیوں کا کوئی رشتہ محمد رسول اﷲﷺ سے نہ روحانی رہا اور نہ ان کی بیویوں سے کوئی ایمانی رشتہ رہا۔ اب بھی یہ لوگ اپنے آپ کو مسلمان کہیں اور محمدﷺ کے روحانی فرزند بنیں۔ کتنا غلط ہے اور کتنا بڑا جھوٹ ہے۔ بے چارے سیدھے سادھے مسلمانوں کو اسلام سے پھیر کر مرتد بنانے کے سوا اور کیا ہے۔
حدیث دوازدہم
اس حدیث کے مضمون سے تمام مسلمان پڑھے، ان پڑھے، عالم، جاہل سبھی واقف ہیں کہ مرنے کے بعد ہر میت سے خواہ مؤمن ہو منافق ہو یا کافر ہو۔ منکر نکیر نامی دو فرشتے قبر میں سوال کرتے ہیں کہ تیرا رب کون ہے۔ تیرے نبی کون ہیں۔ تیرا دین کیا ہے۔ تیری کتاب کیا ہے۔ مؤمن جواب دیتا ہے۔ میرا رب اﷲ ہے۔ نبی محمدﷺ ہیں۔ دین اسلام ہے کتاب قرآن ہے۔ یہ سوالات ہر انسان سے اس کی قبر میں قیامت تک ہوتے رہیں گے اور انہی جوابات پر قبر کی راحت اور عذاب کا انحصار ہے۔ اگر محمد رسول اﷲﷺ کے بعد کسی اور نبی کی آمد ہوتی۔ یہ سوال وجواب قیامت تک کے لئے نہ ہوتے۔ بلکہ محمدﷺ کے بعد آنے والے نبی کے آجانے کے بعد