یزعم انہ نبی اﷲ وانا خاتم النبیین لانبی بعدی (ابوداؤد، ترمذی ج۲ ص۴۵)‘‘ {رسول اﷲﷺ نے فرمایا کہ میری امت میں تیس سخت جھوٹے ظاہر ہوں گے۔ ان میں ہر ایک اپنے آپ کو اﷲ کا نبی قرار دے گا اور حال یہ ہے کہ میں خاتم النبیین ہوں۔ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔}
اس حدیث میں دو باتیں غور کرنے کی ہیں۔ اوّل امت کا لفظ امت کی دو قسمیں ہیں۔ ایک امت دعوت یعنی وہ قوم وامت جس کی طرف نبی بنا کر بھیجا گیا۔ خواہ وہ قوم نبی کی دعوت قبول کرے رسالت، اور دین اسلام کے بارے میں قبر (عالم برزخ) میں سوال ہوتا ہے۔ محمدﷺ کے بعد اگر کوئی اور نبی ورسول ہوتا تو قبر میں اس نئے نبی ورسول کی نبوت ورسالت کے متعلق سوال ہوتا۔ چونکہ محمدﷺ کے بعد کوئی نبی ورسول نہیں ہیں۔ اس لئے قیامت تک ہر انسان سے محمدﷺ ہی کی نبوت ورسالت کے متعلق سوال ہوتا رہے گا۔ امت کی دوسری قسم امت اجابت ہے۔ یعنی وہ لوگ جو نبی پر ایمان لائیں تمام انسان تاقیامت محمدﷺ کی امت دعوت ہیں اور ان میں مسلمان امت اجابت ہیں۔ حدیث میں امت کا لفظ عام ہے۔ دونوں کو شامل ہے۔ پہلی قسم کی امت میں مسیلمہ کذاب ہے کہ وہ محمدﷺ کا منکر تھا اور آپﷺ کے بعد نبوت کا مدعی ہوا۔ دوسری قسم میں محمد علی باب، بہاء اﷲ اور مرزاقادیانی ہیں جو پہلے محمدﷺ کی امت اجابت میں تھے اور آنحضرت پر ایمان رکھتے تھے پھر اپنی اپنی نبوت کے جھوٹے دعویدار ہوئے۔
حدیث سوم
’’عن ابی ذرؓ قال رسول اﷲﷺ یا اباذرؓ اوّل الانبیاء آدم وآخرہم محمد (کنزالعمال)‘‘ حضرت ابوذرغفاریؓ سے روایت ہے۔ رسول اﷲﷺ نے فرمایا اے ابوذر آدم علیہ السلام سب سے پہلے نبی ہیں اور محمدﷺ سب سے آخری نبی ہیں۔
اس حدیث میں ابتداء اور انتہاء کی حدیں بیان کر دی گئیں۔ جس طرح آدم علیہ السلام سے پہلے کسی نبی کا تصور ناممکن ہے۔ کیونکہ نبی انسانوں میں ہوتے ہیں اور آدم علیہ السلام پہلے انسان ہیں۔ اسی طرح انتہاء میں محمدﷺ کے بعد نبوت کا دروازہ بند اور نبی کی آمد ختم ہوگئی۔
حدیث چہارم
۹؍ذی الحجہ ۱۰ھ بروز جمعہ عرفات کے میدان میں حجۃ الوداع کے موقع پر تمام نوع