خلاصہ: یوں تو پورا قرآن مجید محفوظ رہ کر محمدﷺ کی ختم نبوت پر گواہ ہے۔ پھر بھی صراحت کے ساتھ اور اشارے کنائے میں سیکڑوں آیتیں سرکار مدینہﷺ پر، نبوت ورسالت ختم ہونے اور آپﷺ کے بعد نبی کی آمد کا سلسلہ بند ہو جانے کا اعلان کر رہی ہیں۔ قرآن مجید میں جہاں کہیں بھی دوسرے نبی ووحی کا ذکر آیا ہے۔ اﷲ نے ’’من قبلک‘‘ کے لفظ سے ختم رسالت کا مفہوم واضح کر دیا ہے۔ پورے قرآن میں کسی ایک جگہ بھی نبوت ووحی کے سلسلے میں ’’بعدک‘‘ کا لفظ نہیں آیا ہے۔ اشارۃً بھی آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بعد کسی نبی کی آمد کی گنجائش نہیں رکھی ہے۔
قرآن مجید کی آن آیتوں سے قادیانی صاحبان بھی ہدایت حاصل کر سکتے ہیں۔ محمد علی باب اور بہاء اﷲ کے پیرو بہائی صاحبان اور دوسرے تمام آئندہ مدعیان نبوت اور ان کے پیرو کے لئے بھی ان آیتوں میں کامل رہنمائی ہے۔
حدیثیں قرآن کی توضیح وتفسیر کرتی ہیں۔ محمد رسول اﷲﷺ کے آخری نبی ہونے کے متعلق قرآن مجید کی بے شمار آیتیں صریح واضح ہیں۔ پھر بھی چند حدیثیں جو کثرت روایت کی وجہ سے تواتر کا درجہ رکھتی ہیں۔ درج کی جاتی ہیں تاکہ حسب فرمان الٰہی ’’لتبین للناس ما نزل الیہم (النحل:۴۴)‘‘ اے نبی آپﷺ پر جو کچھ لوگوں کی ہدایت کے لئے وحی وکتاب نازل ہوئی ہے۔ آپﷺ خود ان کی وضاحت وتفسیر کردیں۔ معلوم ہوتا کہ نبوت کے سلسلے میں قرآنی آیات کا کیا مفہوم ہے اور خود قرآن لانے والے نے کیا ارشاد فرمایا ہے۔ چنانچہ صحابی اوّل سے لے کر آج تک تمام امت محمدیہ علی صاحبہا صلوٰۃ اﷲ وسلامہ کا عقیدہ اجماع اور عمل اس پر رہا اور ہے کہ محمدﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔ آنحضرتﷺ کے بعد اور جو کوئی نبوت کا دعویٰ کرے کذاب ودجال ہے۔ قرآنی آیات، نبوی تفسیر (حدیث) اور اجماع امت کے قول وعمل کے بعد محمدﷺ کے آخری نبی ہونے میں کوئی شک وشبہ باقی نہیں رہتا اور اﷲ کے اعلان کے مطابق کہ صحابہ کرامؓ بالخصوص مہاجر صحابہ برحق اور صادق مؤمن ہیں۔ ’’اولئک ہم الصادقون (الحجرات:۱۵)‘‘
’’اولئک ہم المؤمنون حقا (الانفال:۷۴)‘‘
اور انہی کی راہ سبیل المؤمنین ہے۔ جو کوئی ان کی راہ سے ہٹا۔ ’’ویتبع غیر سبیل المؤمنین نولہ ماتولی ونصلیہ جہنم وسأت مصیرا (النسائ:۱۱۵)‘‘ وہ جہنمی ہے اور جہنم برا ٹھکانا ہے۔