ذیقعدہ ۶ھ میں جناب رسالت مآبؓﷺ نے عمرہ کا ارادہ فرمایا۔ اس وقت مکہ مکرمہ ابھی کفار کے ہی زیر قبضہ تھا۔ لیکن کفار مکہ اپنے مذہبی خیال سے کسی حج اور عمرہ کرنے والے کو نہیں روکتے تھے اور شوال، ذیقعد، ذی الحج اور رجب کے مہینوں میں لڑائی کو منع جانتے تھے۔ آپ عمرہ کے لئے تشریف لے چلے اور چودہ پندرہ سو صحابہ ساتھ ہوئے۔
حدیبیہ پہنچ کر یا روانگی سے قبل آپ نے خواب دیکھا کہ ہم معہ تمام اصحاب کے بلا خوف وخطر مکہ معظمہ میں داخل ہوئے ہیں اور ارکان حج ادا کئے ہیں یہ آپﷺ کا خواب کوئی الہامی پیش گوئی نہیں نہ اس میں کوئی وقت مقرر کیا گیا ہے۔ یہ خواب آپﷺ نے صحابہ کرامؓ سے بیان فرمایا۔ چونکہ حضورﷺ اس سال عمرہ کا ارادہ فرما رہے تھے اور انبیاء علیہم السلام کے خواب سچے ہوتے ہیں۔ اس لئے بعض اصحاب کو یقین ہوا کہ ہم اسی سال حج کریں گے۔ یہ خیال نہیں رہا کہ حضرت رسول ﷺ نے سال کا تعین نہیں فرمایا۔ حدیبیہ میں کفار مانع آئے۔ مگر کچھ شرائط کے ساتھ اس پر صلح ہوگئی۔ کہ اس سال نہ جائیں۔ آئندہ سال عمرہ کریں۔ جب حضورﷺ نے حدیبیہ سے واپسی کا ارادہ فرمایا تھا۔ کہ ہم خانہ کعبہ جائیں گے
اور طواف کریں گے۔ اسی پر حضرت رسالت مآبﷺ نے فرمایا کہ ہاں میں نے کہا تو تھا مگر کیا یہ کہا تھا کہ اسی سال ہم داخل ہوں گے۔ حضرت عمرؓ نے عرض کیا۔ کہ نہیں۔ حضورﷺ نے فرمایا کہ خانۂ کعبہ میں داخل ہوگے اور طواف کرو گے۔ یعنی ہمارے خواب کا ظہور کسی وقت ہوگا۔ (یہ روایت صحیح بخاری باب الشروط فی الجہاد میں ہے) خدا تعالیٰ نے آئندہ سال میں اس خواب کا ظہور دکھا دیا۔ پھر ایک سال بعد فتح مکہ ہوئی اور نہایت کامل طور سے اس کی صداقت کا ظہور ہوا۔ غر ض دو سال کے اندر وہ خواب یا پیش گوئی کامل طور سے پوری ہوگئی۔
یہاں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ ۶ھ میں حضرت رسالت مآبﷺ نے عمرہ کا ارادہ اس خواب کی بناء پر کیا تھا یا صرف عمرہ کا شوق اور کفار مکہ کی حالت کا معلوم کرنا اس کا مقصود تھا۔ کامل تحقیق اس امر کی شہادت دیتی ہے۔ کہ عمرہ کرنے کا خیال اس سفر کا باعث ہوا تھا۔ کیونکہ کسی روایت سے ثابت نہیں ہوتا۔ کہ خواب کا دیکھنا موجب سفر ہوا صحیح روایت تو یہی ہے کہ حدیبیہ پہنچ کر حضور انورﷺ نے وہ خواب دیکھا تھا۔ اس کی صحت بلحاظ راوی کے اور بااعتبار ناقلین کے ہر طرح ثابت ہوتی ہے۔ اس کے راوی مجاہدؒ ہیں جو حضرت عبداﷲ بن عباسؓ کے شاگرد رشید اور نہایت ثقہ ہیں اور اس روایت کو اکثر مفسرین اور محدثین نے نقل کیا ہے۔ تفسیر درمنثور میں اس روایت کو پانچ محدثین سے اس طرح نقل کیا گیا ہے کہ :