ان حالات میں ان دونوں پیش گوئیوں کو کسی صورت میں یکساں نہیں کہا جاسکتا اور مرزا قادیانی کا یہ کہنا کہ یونس علیہ السلام کی پیش گوئی ایک آسمانی فیصلہ تھا اور اس میں شرط نہ تھی اور میں نے آسمانی کتابوں اور حدیثوں کو آگے رکھ دیا۔ یہ تو بالکل جھوٹ اور صریح کذب ہے۔
مسٹر عبداﷲ آتھم عیسائی کی موت کے متعلق ان الفاظ میں پیش گوئی تھی۔،
۱… ’’جو فریق عمداً جھوٹ کو اختیار کررہا ہے اور سچے خدا کو چھوڑ رہا ہے اور عاجز خدا کو خدا بنا رہا ہے۔ وہ انہی دنوں مباحثہ کے لحاظ سے یعنی فی دن ایک مہینہ لے کر یعنی ۱۵ماہ تک ہاویہ میں گرایا جائے گا اور اس کو سخت ذلت پہنچے گی۔ بشرطیکہ حق کی طرف رجوع نہ کرے۔‘‘
(جنگ مقدس ص۲۱۰، خزائن ج۵ ص۲۹۲)
۲… آتھم کی بابت پیش گوئی کے لفظ یہ تھے کہ وہ پندرہ مہینے میں ہلاک ہوجائے گا۔‘‘
(حقیقت الوحی ص۱۸۶، خزائن ج۲۲ ص۱۹۲)
ان دونوں حوالوں کا مطلب یہ ہے کہ آتھم پندرہ ماہ کے اندر مر جائے گا۔ لیکن اس صاف صاف بیان کے برخلاف (کشتی نوح ص۶، خزائن ج۱۹ ص۶) پر تحریر کرتے ہیں: ’’کہ پیش گوئی میں یہ بیان تھا کہ جو شخص اپنے عقیدے کی رو سے جھوٹا ہے۔ وہ پہلے مرے گا۔‘‘
اب دیکھ لیجئے۔ کہاں پندرہ ماہ کا تعین اور کہاں جھوٹے کا سچے سے پہلے مرنا۔ یہ پچھلا فقرہ بالکل جھوٹ اس لئے تراشا گیا کہ آتھم میعاد مقررہ میں فوت نہیں ہوا۔
اﷲ! اﷲ! یا تو ان دو پیش گوئیوں کو عیسائیوں اور مسلمانوں کے لئے عظیم الشان نشان اور انپے صدق و کذب کا معیار قرار دیتے تھے۔ یا اب متردد ہوکر اور برسوں منتظر رہ کر اس قدر کمزوری دکھاتے ہیں جو صریح دلیل کذب ہے حوالہ مذکور میں آگے چل کر کہتے ہیں کہ:
’’اس کی مثال ایسی ہے کہ مثلاً کوئی شریر النفس ان تین ہزار معجزات کا کبھی ذکر نہ کرے جو ہمارے نبیﷺ سے ظہور میں آئے اور حدیبیہ کی پیش گوئی کو بار بار ذکر کرے کہ وہ وقت انداز کردہ پر پوری نہ ہوئی۔‘‘ (تحفہ گولڑویہ ص۴۰، خزائن ج۱۷ ص۱۵۳)
عبارت زیر خط حضرت رسالت مآبﷺ پر ایسا کھلا کھلا حملہ اور ناپاک الزام ہے۔ جو قادیانی نبی کاذب کے منہ سے ہی نکل سکتا ہے۔ ورنہ آنحضرتﷺ نے کوئی پیش گوئی بقید وقت نہیں فرمائی۔ جو اپنے وقت پر پوری نہ ہوئی ہو۔ چونکہ اس الزام دینے میں مرزا قادیانی نے بڑی چالاکی اور بے باکی سے اپنے ایمان کا نمونہ دکھایا ہے۔ اس لئے اصل قصہ ذرا وضاحت سے درج کیا جاتا ہے۔ تاکہ ناظرین حضرت نبی ﷺ کا صدق اور مرزا قادیانی کا کذب بخوبی دیکھ لیں۔