۱… نکاح والی پیش گوئی قطعی اور یقینی ہے اور اس کی بناء متواتر الہامات پر رکھی گئی تھی اور بعد میں بھی وقتاً فوقتاً الہام اس کی تائید میں ہوتے رہے۔ جیسا کہ فصل گذشتہ میں ذکر ہوچکا ہے۔ برخلاف اس کے حضرت یونس علیہ السلام کی پیش گوئی کا ثبوت نہ کسی الہامی کتاب سے ملتا ہے نہ احادیث صحیح سے۔ اس کا ماخذ بعض ضعیف روایات ہیں۔
۲… منکوحہ آسمانی کے واپس آنے کا الہام ان الفاظ میں تھا۔ ’’فسیکفیکہم اﷲ ویردھا الیک انا کنا فاعلین‘‘ (انجام آتھم ص۶۰،خزائن ج۱۱ ص۶۰)
(اﷲ ان مخالفوں کے لئے تیری طرف سے کافی ہوگا اور اس عورت کو تیری طرف واپس لائے گا اور ہم ایسا ہی کریں گے) مگر حضرت یونس علیہ السلام کو اس طرح نہیں کہا گیا۔
۳… مرزا قادیانی کو الہام ہوا تھا۔ ’’الحق من ربک فلا تکن من الممترین‘‘
(ازالہ اوہام ص۳۹۸، خزائن ج۳ ص۳۰۶)
(یعنی اس عورت کا واپس ہوکر تیرے نکاح میں آنا حق ہے تو اس میں شک نہ کر) حضرت یونس علیہ السلام سے ایسا ارشاد نہیں ہوا۔
۴… مرزا قادیانی کے الہام میں ہے۔ ’’لا تبدیل لکلمات اﷲ‘‘
(انجام آتھم ص۶۰،۶۱، خزائن ج۱۱ ص۶۰،۶۱)
(یعنی خدا کی باتیں بدلا نہیں کرتیں) حضرت یونس علیہ السلام کو اس معاملہ میں اس طرح کہنا کسی ضعیف روایات میں بھی مذکور نہیں۔
۵… مرزا قادیانی کہتے ہیں کہ ’’بار بار کی توجہ سے یہ الہام ہوا کہ خدا تعالیٰ ہر ایک مانع دور کرنے کے بعد اس لڑکی کو انجام کار اس عاجز کے نکاح میں لائے گا۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۳۹۶، خزائن ج۳ ص۳۰۵)
مگر حضرت یونس علیہ السلام نے ایسا نہیں فرمایا کہ پیش گوئی ہر حالت میں ضرور ہی ظہور میں آئے گی۔
۶… مرزا قادیانی نے محمدی بیگم کے نکاح پر خدا کی قسم کھائی اور کوئی بھلا آدمی اسی بات پر قسم کھا سکتا ہے۔ جس کے وقوع کی اسے پیش گوئی از وقت خبر دی گئی ہو اور اسے آسمان سے یقینی اطلاع مل چکی ہو۔ لیکن حضرت یونس علیہ السلام نے کوئی قسم نہیں کھائی۔ پس اس حلفیہ پیش گوئی کا پورا نہ ہونا مرزا قادیانی کے کذب کی صریح دلیل ہے۔