اور نظام عالم ان ہی باتوں سے قائم ہے۔ کچھ حرج نہیں اگر آپ طلاق دلوائیں گے۔ تو یہ بھی ایک پیغمبری کی نئی سنت قائم کرکے بدزبانی کا سیاہ داغ مول لیں گے۔ باقی روٹی تو خدا اس کو بھی کہیں سے دے ہی دے گا۔ ترنہ سہی خشک۔ مگر خشک بہتر ہے۔ جو پسینہ کی کمائی سے پیدا کی جاتی ہے۔ (بڑا لطیف طنز ہے۔ المولف برنی)
میں بھائی احمد بیگ کو خط لکھ ر ہا ہوں۔ بلکہ آپ کا خط بھی اس کے ساتھ شامل کردیا ہے۔ مگر میں ان کی موجودگی میں کچھ نہیں کرسکتا اور میری بیوی کا کیا ہے۔ کہ وہ اپنی بیٹی کے لئے بھائی کی لڑکی کو ایک دائم المریض آدمی کو جو مراق سے خدائی تک پہنچ چکا ہے دینے کے لئے کس طرح لڑے۔ ہاں اگر وہ خود مان لیں تو میں اور میری بیوی حارج نہ ہوں گے۔ آپ خود ان کو لکھیں مگر درشت اور سخت الفاظ آپ کا قلم گرانے کا عادی ہوچکا ہے۔ اس سے جہاں تک ہوسکے اعراض کریں اور منت سماجت سے کام لیں۔ خاکسار علی شیر بیگ از قادیان ۴؍مئی ۱۸۹۱ئ‘‘
(منقول قادیانی مذہب ص۴۶۲،۴۶۳)
جب نکاح والی پیش گوئی کے پورا ہونے سے مرزا قادیانی مایوس ہوگئے اور قلبی صدمہ کے علاوہ مرزا قادیانی کو اعتراضوں کی بوچھاڑ اور خوف کا خیال ہوا تو آپ آخری وقت کی تصنیف (تتمہ حقیقت الوحی ص۱۳۳، خزائن ج۲۲ ص۵۷۰) میں لکھتے ہیں کہ: ’’نکاح کے لئے ایک شرط تھی۔ جب ان لوگوں نے شرط کو پورا کردیا۔ تو نکاح فسخ ہوگیا۔ یا تاخیر میں پڑ گیا۔‘‘
آگے چل کر کہتے ہیں کہ: ’’کیا یونس علیہ السلام کی پیش گوئی نکاح پڑھنے سے کچھ کم تھی۔ جس میں بتایا گیا تھا کہ آسمان پر یہ فیصلہ ہوچکا ہے کہ ۴۰ دن تک اس قوم پر عذاب نازل ہوگا مگر عذاب نازل نہ ہوا۔ حالانکہ اس میں کسی شرط کی تصریح نہیں تھی۔ پس وہ خدا جس نے ایسا ناطق فیصلہ منسوخ کردیا۔ اس پر مشکل تھا کہ اس طرح نکاح کو بھی منسوخ یا کسی وقت پر ٹال دے۔‘‘
(تتمہ حقیقت الوحی ص۱۳۳، خزائن ج۳۳ ص۵۷۰)
اس قول میں مرزا قادیانی نے پیٹ بھر کر جھوٹ بولا ہے بلکہ ایک نہیں کئی جھوٹ بولے ہیں اس طرح (ضمیمہ انجام اتھم ص۵۴، خزائن ج۱۱ ص۳۳۸) میں لکھ دیا ہے کہ: ’’میں نے حدیثوں اور آسمانی کتابوں کو آگے رکھ دیا۔‘‘ یعنی حضرت یونس علیہ السلام کا قصہ حدیثوں اور آسمانی کتابوں سے نقل کیا گیا ہے۔ اب ذرا س جھوٹ کی تفصیل ملاحظہ ہو۔
مرزا قادیانی کے نکاح کی پیش گوئی اور حضرت یونس علیہ السلام کی پیش گوئی میں زمین