۔ کل کتاب کے ۵۱۲ صفحے ہوئے اور تیسری جلد کے آخیر پر اشتہار تھا کہ کتاب سو جز تک پہنچ گئی ہے اور اس دوران میں قیمت کتاب بھی دس روپے اور پچیس روپے کردی۔
جتنی کتاب تیار ہوگئی تھی۔ یہ بھی کئی بار چھپی اور ہزارہا جلدیں اس کی فروخت ہوئیں۔ پیشگی قیمت دینے والوں نے تقاضا کیا کہ جس کتاب کا وعدہ کیا تھا خریداروں کے پاس پہنچنی چاہئے۔ ان لوگوں کو خاموش کرنے کے لئے ایک عجیب وغریب اشتہار شائع کیا گیا۔ چنانچہ لکھتے ہیں کہ: ’’اس توقف کو بطور اعتراض پیش کرنا محض لغو ہے۔ قرآن کریم بھی باوجود کلام الٰہی ہونے کے ۲۳ برس میں نازل ہوا۔ پھر اگر خدا تعالیٰ کی حکمت نے بعض مصالح کی غرض سے براہین کی تکمیل میں توقف ڈال دی تو اس میں کون سا ہرج ہے۔ اگر یہ خیال کیا جائے کہ بطور پیشگی خریداروں سے روپیہ لیا ہے تو ایسا خیال کرنا بھی حمق اور ناواقفی ہے کیونکہ اکثر براہین احمدیہ کا حصہ مفت تقسیم ہوا ہے اور بعض سے پانچ روپیہ اور بعض سے آٹھ آنہ تک قیمت لی گئی ہے اور ایسے لوگ بہت کم ہیں۔ جن سے د س روپے لئے گئے ہیں اور پچیس روپیہ لئے گئے ہوں۔ وہ تو صرف چند ہی انسان ہیں اور پھر باوجود اس قیمت کے جو ان حصص براہین احمدیہ کے مقابل جو منطبع ہوکر خریداروں کو دئیے گئے کچھ عجب نہیں۔ بلکہ عین موزوں ہے۔ اعتراض کرنا سراسر کمینگی اور سفاہت ہے۔ پھر بھی ہم نے بعض جاہلوں کے ناحق شوروغوغا کا خیال کرکے دو مرتبہ اشتہار دے دیا۔ کہ جو شخص براہین احمدیہ کی قیمت واپس لینا چاہے وہ ہماری کتابیں ہمارے پاس روانہ کردے اور اپنی قیمت واپس لے لے۔ چنانچہ وہ تمام لوگ جو اس قسم کی جہالت اپنے اندر رکھتے ہیں انہوں نے کتابیں واپس کردیں اور قیمت لے لی اور بعض کتابوں کو بہت خراب کرکے بھیجا۔ مگر ہم نے قیمت دے دی۔ کئی دفعہ ہم لکھ چکے ہیں کہ ہم ایسے کمینہ طبعو ں کی ناز برادری نہیں کرنا چاہتے اور ہر ایک وقت قیمت دینے پر تیار ہیں۔ چنانچہ خدا تعالیٰ کا شکر ہے کہ ایسے ونی الطبع لوگوں سے خدا نے ہم کو فراغت بخشی۔‘‘ (البدر ۹؍ اگست ۱۹۰۶ئ)
ناظرین! کیا آپ مرزاقادیانی کے عقلی معجزہ کی داد نہ دیں گے؟ فرمائیے اس اشتہار کو پڑھ کر کون شریف اور باحیا آدمی احمق، ناواقف، کمینہ، سفیہہ، جاہل، کمینہ طبع اور دنی الطبع کہلا کر واپسی قیمت کا مطالبہ کرسکتا تھا۔ مختصراً تو یہی کافی ہے کہ مرزا قادیانی نے جس غرض کے لئے روپیہ لیا تھا وہ پوری نہ کی اور اس روپیہ کو بے جا طور پر اپنے صرف میں لائے۔ یہ حلال تھا یا حرام؟ اس کا فیصلہ ناظرین کرسکتے ہیں۔ لیکن مزید توضیح کے لئے مرزا قادیانی کے اس اعلان پر کچھ اور روشنی ڈالی جاتی ہے۔