(جواب) اس خط میں شہاب الدین اس بات سے انکار کرتا ہے کہ کوئی خط میرا بھیجا گیا ہو جو الحکم میں درج کیا گیا۔ جس میں مولوی محمد حسن کی ہتک لکھی گئی ہو یاد نہیں کہ جس وقت مضمون نظم سنایا گیا تھا۔ اس وقت خط بھی سنایا گیا تھا کہ نہیں۔ میں نے شہاب الدین کو ملزم گردانے جانے کا مشورہ نہیں دیا۔ دستخط حاکم۔
نوٹ: اب پانچ بج گئے ہیں۔ اس لئے پرسوں یہ مقدمہ پیش ہو۔
(۱۸؍ جولائی ۱۹۰۴ء دستخط حاکم)
ناظرین کرام! مرزا قادیانی کے یہ جھوٹ ۱۳۸ شائع ہورہے ہیں اس کے علاوہ اور سینکڑوں جھوٹ ہیں۔ کیا ایسا شخص جو کذب بیانی میں اپنا جواب نہ رکھتا ہو۔ کیا اونچی سوسائٹی میں کوئی مقام حاصل کرسکتا ہے۔ چہ جائیکہ مجدد یا ولی یا معاذ اﷲ نبی ہوسکتا ہے اس کا فیصلہ انصاف کی رو سے آپ کیجئے اور مرزائیوں سے اجتناب کریں۔
(حضرت پیر مہر علی شاہ صاحبؒ کو دعوت مقابلہ۔ مرزا قادیانی کی طرف سے)
مناظرہ کا چیلنج دے کر خود نہ پہنچنا اور پیر صاحب کو مفرور قرار دینا۔ یہ ڈھٹائی قابل افسوس ہے۔
جھوٹ نمبر۱۲۹،۱۳۰… اس دعوت کے مطابق پیر گولڑہ صاحبؒ بغرض مقابلہ اگست ۱۹۰۰ء کو بمقام لاہور پہنچ گئے۔ لیکن پیر صاحب نے چالیس علماء کی شرط کو فضول سمجھا اور مقابلہ تفسیر نویسی کے لئے بذات خود پیش ہوئے مگر مرزا قادیانی تشریف نہ لائے بلکہ قادیان سے ایک اشتہار بھیج دیا کہ پیر صاحب گولڑہ مقابلہ سے بھاگ گئے۔
عجیب نظارہ
جس ر وز پیر صاحب گولڑہ لاہور میں آئے بغرض امداد حق اردگرد سے علماء اور غیر علماء بھی وارد لاہور ہوئے تھے۔ مولوی عبدالجبار صاحب غزنوی اور خاکسار۶۵؎ وغیرہ بھی شریک تھے۔ قرار پایا تھا کہ جامع مسجد لاہور میں صبح کے وقت جلسہ ہوگا۔ پیر صاحبؒ مع شائقین مسجد موصوف کو جارہے تھے۔ راستے میں بڑے بڑے موٹے حرفوں میں لکھے ہوئے اشتہار دیواروں پر چسپاں تھے جن کی سرخی یوں تھی۔
پیر مہر علی کا فرار
جو لوگ پیر صاحب کو لاہور میں دیکھ کر یہ اشتہار پڑھتے وہ بزبان حال کہتے:’’اینچہ مے بینیم بہ بیداری ست یارب یا بخواب‘‘