اس لئے پیر مہر علی کے سرقہ برآمد کرانے کے لئے کوشش کی اس خط کے علاوہ میرے نام اور کوئی خط نہیں آیا۔ مجھے یاد نہیں ہے۔ ملزم کرم دین کا خط میرے نام آیا تھا اور اس کا لفافہ میرے نام تھا وہ خط پڑھ کر مولوی کرم دین کو دیدیا۔ سراج الاخبار مورخہ ۶؍ اکتوبر ۱۹۰۲ء ص۶ کالم اول میں راقم مضمون لکھتا ہے۔ کہ الحکم کا پرچہ ایڈیٹر نے اس کے پاس نہیں بھیجا۔ اس بات سے نتیجہ نکلتا ہے کہ جھوٹے اور فرضی خط میرے اور میرے شاگرد میاں شہاب الدین کے نام سے اس اخبار میں درج کئے ہیں۔ اسی اخبار کے ص۶ سطر ۳ میں لفظ اور کا کلمہ ابتداء کے واسطے ہے۔ عطف۶۱؎ کے واسطے نہیں پچھلے فقرے کے ساتھ اور کسی بعد کے فقرے کا تعلق ہے۔ میں۶۲؎ نہیں جانتا کہ اور کس قسم کا ہے اور اور کا کلمہ عطف کا ہو تو اس کے مابعد کا جملہ معطوف علیہ ہوگا۔
ہر حال۶۳؎ میں معطوف تابع معطوف علیہ کا نہیں ہوتا۔ سطر تین میں اور کے لفظ کے مابعد کا جملہ پہلے جملہ کا تابع نہیں ہے مابعد والے میں زیادہ بیان ہے۔ ما قبل میں کم جھوٹ اور افترا کلام کے مفہوم سے تعلق رکھتا ہے جو انہیں الفاظ سے نکالا جاتا ہے۔ اخبار سراج الاخبار ۱۳؍ اکتوبر ۱۹۰۲ء ص ۵ میں شعر کچھ جھوٹے خطوط گھڑ کے خود ہی
یہ بات ہے ملک میں اڑائی پہنچے ہیں خطوط مجھ کو بھیں سے
فیضی کی ہے ہتک جن میں پائی
میں ان خطوط۶۴؎ کا ذکر ہے جن سے فیضی کی ہتک پائی گئی ۔ ان دو شعروں میں انہیں دو خطوط کا گھڑنا لکھا ہے ص ۵ میں جو اشعار ہیں ان میں صرف انہیں خطوط کا ذکر ہے جن میں فیضی کی ہتک پائی جاتی ہے۔ (سوال) جو خط شہاب الدین کا ۱۳؍ اکتوبر ۱۹۰۲ء کے سراج الاخبار ص ۶ میں چھپا ہوا ہے کہ مجھ کو نہایت افسوس ہے۔
کہ کسی فتنہ باز نے محض شرارت سے یہ چالبازی کی تھی۔ خداوند کریم کو حاضر ناظر جان کر کہتا ہوں کہ میں اس قسم کی عادت سے بیزار ہوں۔ میں نے کوئی خط نہیں لکھا۔ جس میں یہ لکھا گیا ہو کہ مولوی صاحب مرحوم کی موت ایسی ہوئی تو اس عبارت میں راقم خط نے اس خط کو چالبازی قرار دیا اور اس کے لکھنے سے انکار کرتا ہے۔ جو الحکم میں فیضی کی ہتک کے متعلق چھپایا نہیں۔ (وکیل استغاثہ کا اس سوال کی نسبت اعتراض کرتا ہے مگر جو حوالہ پیش کیا گیا ہے اس کی تائید میں وہ اس کی قطعی ممانعت نہیں کرتا۔ اس لئے سوال پوچھنے کی اجازت دے دی گئی۔
(حوالہ ج۶ الہ آباد ص۲۲)