اسلامی قانون بہرحال موجودہ صورتحال کو گوارا نہیں کرتا۔ از روئے اسلام قادیانی اپنی عبادت گاہ کو نہ تو مسجد کہہ کرپکار سکتے ہیں، نہ اذان دے سکتے ہیں، نہ جماعت کروا سکتے ہیں، حتیٰ کہ وہ اپنی عبادت گاہ کی ایسی ہیبت وشکل بھی نہیں بنا سکتے جو مسجد سے مماثل ومشابہہ ہو۔ یہی صورت بعض دیگر مسائل ومعاملات کی بھی ہے۔
اندریں حالات دیندار ماہرین قانون کواس طرف فوری توجہ کرنا چاہئے اور اس صورتحال کا حل تلاش کرنا چاہئے۔ یہ صورتحال موجودہ چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر جنرل ضیاء الحق صاحب کی بھی فوری توجہ کی متقاضی ہے جن کی دینداری کا غائبانہ طور پر میں بہت ذکر سنتا ہوں۔ اگر ان کا مارشل لاء ریگولیشن دین کی کوئی خدمت کرسکے تو پوری ملت اسلامیہ ان کو دعا دے گی بعد میں مستقبل کا کوئی قانون ساز ادارہ ان کے ریگولیشن کو قانون کا درجہ دے سکتا ہے۔
سال اقبال کا تقاضا
کسی بھی شخصیت کو خراج عقیدت پیش کرنے کا سچا طریقہ یہ ہے کہ انسان ان کی دکھائی ہوئی راہ پر چلے۔ یہ سال اقبال ہے اور یہ بات کسے معلوم نہیں کہ پاکستان کا نقشہ واضح لفظوں میں سب سے پہلے اقبال نے کھینچا۔ کیا ہم پر یہ لازم نہیں کہ ہم ان کے نقشے میں ان کی پسند کا رنگ بھریں۔ یعنی اس مملکت خدا داد پاکستان میں اسلام کو عملی طور پر نافذ کرکے پوری دنیا کے سامنے ایک عظیم تر اور تابندہ تر اسلامی پاکستان بطور نمونہ (Ideal) پیش کریں؟
بشکریہ ہفت روزہ چٹان لاہور …۱۹؍دسمبر ۱۹۷۷ء
نوٹ: اس کتابچہ کے مقدمہ میں ایک مطبوعہ کارڈ کا ذکر ہے۔ وہ علیحدہ شائع کر کے ہرکتاب میں علیحدہ طور پر رکھا گیا۔ جو یہ ہے:
باسمہ سبحانہ!
لا نبی بعدی زاحسان خد است
پردہ ناموس دین مصطفیٰ است
(علامہ اقبالؒ)
بخدمت جناب جنرل محمد ضیاء الحق صاحب
چیف آف دی آرمی سٹاف وچیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر پاکستان
السلام علیکم ورحمتہ اﷲ وبرکاتہ‘